افغان خواتین کیا طالبان کی نئی پابندیاں خاموشی سے قبول کر لیں گی؟
خالدہ نیاز
افغانستان میں طالبان نے خواتین کے اکیلے سفر کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ طالبان نے کہا ہے کہ وہ خواتین جو 72 کلومیٹر سے زیادہ کا سفر طے کرنا چاہتی ہیں ان کے لیے مرد رشتہ دار کا ہونا ضروری ہے، مرد کے بغیر وہ سفر نہیں کر پائیں گی۔ طالبان نے گاڑی مالکان کو بھی بتایا ہے کہ وہ کسی بھی خاتون کو جو بغیر حجاب کے ہو اپنی گاڑی میں نہ بٹھائیں۔
یہ ہدایات طالبان کی وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر (اخلاقیات اور برائی کی روک تھام) کی جانب سے جاری کی گئی ہیں۔
بریشنا صافی جو کہ سابق صدر اشرف غنی کے دور حکومت میں لغمان صوبے کی ڈپٹی گورنر رہ چکی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد افغانستان میں خواتین اپنے گھروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں، تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے ہیں، باقی شعبوں میں کام کرنے والی خواتین بھی اب گھروں سے کم ہی باہر نکلتی ہیں کیونکہ ان کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
بریشنا صافی نے کہا کہ افغان خواتین کافی مشکلات دیکھ چکی ہیں اور یہ خواتین اب اپنے حقوق کی خلاف ورزی پر خاموش نہیں رہیں گی اور اپنے حقوق دوبارہ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گی۔
طالبان کے حالیہ ہدایات نامے کے حوالے سے سابقہ ڈپٹی گورنر نے کہا کہ ایسا فیصلہ کرنے سے پہلے طالبان حکومت کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے تھی کہ 40 سالہ افغان جنگ میں سینکڑوں خواتین نے اپنے مردوں کو کھویا ہے، کئی مرد باہر کے ممالک میں کام کر رہے ہیں جبکہ اگر کچھ گھروں پر بھی ہیں تو وہ بھی اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ وہ نہیں کر سکتے کہ ہر وقت اپنی خواتین کے ساتھ باہر جائیں، انہوں نے کام بھی تو کرنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اب دور بدل چکا ہے لیکن طالبان کی سوچ وہی پرانی ہے، انہوں نے آتے ساتھ ہی خواتین پر پابندیاں عائد کرنا شروع کی ہیں لیکن ان کو یہ پابندیاں ہٹانی چاہئیں، ”جب ایک خاتون کے ہاں مرد ہے ہی نہیں تو وہ کہاں سے مرد کو لائے کہ یہ میرا محرم ہے، خواتین تو پہلے سے ہی مشکلات سے بھری زندگی گزار رہی ہیں، وہ نہیں کر سکتیں کہ آئے روز نئے نئے حکمناموں کی تعمیل کریں۔”
بریشنا صافی کہا کہ اسلام نے خواتین پر اس طرح کی پابندیاں عائد نہیں کی جو طالبان عائد کر رہے ہیں، طالبان خواتین پر ایسی پابندیاں لگا رہے ہیں جو کہ منصفانہ نہیں ہیں۔
خیال رہے اگست 2021 میں جب طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھالا تو انہوں نے کہا تھا کہ وہ خواتین پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کریں گے تاہم آہستہ آہستہ طالبان کچھ ایسے قوانین سامنے لا رہے ہیں، جس سے خواتین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
افغانستان سے تعلق رکھنے والی قاندی صافی جو کئی سالوں سے پشاور میں رہائش پذیر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے فیصلے سے بالکل بھی خوش نہیں ہیں کیونکہ ایسی خواتین کیا کریں گی جن کے گھر میں کوئی مرد نہیں ہے، کیا وہ ساری عمر گھر ہی گزار دیں گی؟ ”افغانستان میں کئی گھرانے ایسے ہیں جن کے مرد افغان جنگ میں اپنی زندگیاں ہار چکے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ مرد تو ہر وقت خواتین کے ساتھ نہیں آ جا سکتے کیونکہ مردوں کو بھی ہزاروں کام ہوتے ہیں، محنت مزدوری کے لیے جانا ہوتا ہے جبکہ خواتین کو بھی روزانہ کی بنیاد پر کئی کاموں کے لیے گھر سے باہر جانا پڑتا ہے، اس کے علاوہ کوئی بیمار بھی ہو سکتی ہے اور خوشی اور غمی میں بھی ان کو جانا ہوتا ہے تو طالبان کا یہ فیصلہ کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہو گا۔
قاندی صافی نے کہا کہ طالبان اس سے پہلے لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے بھی بند کر چکے ہیں، تو ایسے میں خواتین کیا کریں اور کہاں جائیں کیونکہ تعلیم تو سب کی بنیادی ضرورت ہے، ”ہم فلموں میں دیکھتے تھے کہ ایک گروہ ہوتا ہے اور وہ ایک جگہ پر قابض ہو جاتا ہے جہاں لوگوں پر حکمرانی کرتے ہیں اور ان کو کہتے ہیں کہ ان کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کریں تو افغانستان میں آج کل ایسی صورتحال حقیقت میں دیکھنے کو مل رہی ہے کیونکہ وہاں لوگوں کی زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے۔” قاندی صافی نے کہا۔
وہ کہتی ہیں کہ پہلے جب افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی تھی تو تب لوگوں میں اتنا شعور نہیں تھا اس لیے وہ کچھ کہہ نہیں پائے لیکن اس بار ویسا کچھ نہیں ہے کیونکہ اب لوگ تعلیم یافتہ ہو چکے ہیں، اب سوشل میڈیا کا دور ہے، افغانوں میں شعور آ چکا ہے، طالبان آ تو چکے ہیں لیکن وہ زیادہ دیر تک نہیں رہیں گے کیونکہ ان سختیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو وہ برداشت نہیں کر سکتے۔
ہدایات میں افغان عوام کو اپنی گاڑیوں میں موسیقی نہ چلانے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ اس سے قبل افغانستان میں کچھ ہفتوں پہلے افغان میڈیا کو خواتین کرداروں والے ڈرامے نہ دکھانے اور ٹی وی پر آنے والی خواتین صحافیوں کو حجاب پہننے کی ہدایت بھی دی جا چکی ہے۔
خیال رہے کہ اس پابندی کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب حال ہی میں امریکی حکومت نے افغان عوام کی امداد کے لئے پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں بھی طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں حکومت کو خواتین کے حقوق نافذ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی تاہم اس حکم نامے میں بھی لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کا کوئی ذکر نہیں تھا۔