افغانستانسیاست

امریکہ کا افغان عوام کی مدد کیلئے پابندیاں ختم کرنے کا اعلان

امریکی حکومت نے افغان عوام کی امداد کے لئے پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔

امریکی محکمہ خزانہ نے اعلان کیا کہ وہ افغانستان کے لیے کچھ انسانی امداد پر پابندیاں ختم کر رہا ہے، انسانی امداد پر پابندیوں میں نرمی ملک میں شدید اقتصادی بحران کی وجہ سے کی جا رہی ہے، محکمہ خزانہ نے تین نئے جنرل لائسنس جاری کیے ہیں جو امریکی حکومت اور بین الاقوامی انسانی تنظیموں کو طالبان اور حقانی نیٹ ورک پر پابندیوں کے بغیر افغانستان میں مزید امداد بھیجنے کی اجازت دیتے ہیں، یہ کارروائی پابندیوں سے مستثنیٰ انسانی امداد کو وسعت دے گی، اس امداد میں تعلیم شہریوں اور سول سوسائٹی کی ترقی سمیت مختلف سرگرمیوں کی حمایت کے لیے ہو گی۔

بائیڈن انتظامیہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ نئے لائسنس سے انسانی ہمدردی کی تنظیموں کو اساتذہ اور ممکنہ طور پر دیگر سرکاری ملازمین کو تنخواہ دینے کے لیے موجود پابندیوں کی خلاف ورزی کے بغیر مدد ملے گی۔

امریکی حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ انسانی ہمدردی کی تنظیموں کے ساتھ بات چیت جاری رکھے گی تاکہ یہ سمجھ سکے کہ افغانی عوام کو اور کیا ضرورت ہے۔

یاد رہے بائیڈن انتظامیہ نے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے چار ماہ بعد یہ امدادی حکم جاری کیا ہے۔ یہ اقدامات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے امریکہ کی سرپرستی میں ایک متعلقہ قرارداد کی منظوری کے فوراً بعد سامنے آئے ہیں، جن میں افغانستان میں انسانی ہمدردی کی سرگرمیوں کو ایک سال کے لیے بین الاقوامی پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔

سکیورٹی کونسل: افغان عوام کی مدد کی قرارداد منظور

اقوام متحدہ میں پاکستانی مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں افغانستان کیلئے انسانی امداد کی قرارداد کی منظوری پاکستان کے موقف کی تائید ہے؛ پاکستان، چین اور روس نے امریکہ کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کیلئے رکن ممالک سے رابطے کئے، قرارداد کی منظوری سے افغانستان کو فوری طور پر امداد کیلئے جمع کی گئی رقم ادا کی جا سکے گی۔

منیر اکرم نے سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرارداد پر اقوام متحدہ میں بریفنگ دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے میڈیا نمائندگان کو حالیہ او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس کے انعقاد سے بھی آگاہ کیا اور کہا کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے افغانستان کیلئے انسانی امداد کی قرارداد منظور کر لی ہے، قرارداد کی منظوری سے پاکستان کے موقف کی تائید ہوئی ہے اور افغانستان کو امداد کے حوالے سے قانونی پیچیدگیاں ختم ہو گئی ہیں، پاکستان کا موقف تھا کہ افغانستان کو اشیائے ضروریہ کی فراہمی عالمی قوانین کی خلاف ورزی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان، چین اور روس نے امریکہ کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کیلئے رکن ممالک سے رابطے کئے، قرارداد کی منظوری سے افغانستان کو فوری طور پر امداد کیلئے جمع کی گئی رقم ادا کی جا سکے گی، امداد اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کے ذریعے افغانستان کو دی جائے گی، قرارداد کے بعد افغانستان کیلئے فوری طور پر مزید 4.3 ملین ڈالرز کی اپیل کی ہے۔

او آئی سی اجلاس پر پاکستان کے شکرگزار ہیں۔ امریکہ

امریکی وزیر برائے خارجہ امور انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ او آئی سی کا اجلاس افغان عوام کی مدد کیلئے عالمی برادری کو مدعو کرنے پر پاکستان کے شکرگزار ہیں، اسلام آباد میں افغانستان پر اسلامی تعاون تنظیم کا غیرمعمولی اجلاس ہمارے مشترکہ عزم کی ایک مثال ہے۔

بدھ کو اپنے ٹوئٹ میں انٹونی بلنکن نے کہا کہ ہم اس اہم اجلاس کا انعقاد کروانے اور افغان عوام کی مدد کے لیے عالمی برادری کو مدعو کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

داعش پاکستان اور افغانستان میں کارروائیاں کر رہی ہے۔ امریکا

دوسری جانب امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا ہے کہ افغانستان میں موجود داعش خراسان نامی گروپ افغانستان اور پاکستان میں کارروائیاں کرتا ہے، جو بنیادی طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان، افغان طالبان اور اسلامک موومنٹ ازبکستان کے سابقہ اراکین پر مشتمل ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ بات دہشت گردی سے متعلق ایک امریکی رپورٹ میں کہی گئی، امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی سالانہ رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیا کہ افغانستان سے کارروائیاں کرنے والی داعش خراسان میں اب بھی تقریباً ایک ہزار جنگجو شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق داعش خراسان کو کچھ فنڈنگ اپنی بنیادی تنظیم داعش سے حاصل ہوتے ہیں جبکہ بقیہ غیرقانونی مجرمانہ تجارت اور بھتہ خوری سے اکٹھے کیے جاتے ہیں۔

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ گروپ نے افغان فورسز اور عوام کے خلاف خود کش بم دھماکے، چھوٹے مسلح حملے اور اغوا کی کارروائیں کیں، اس کے علاوہ گروپ نے پاکستان کے اندر حکومتی عہدیداروں اور شہریوں پر کیے گئے حملوں کی بھی ذمہ داری قبول کی۔

رپورٹ میں داعش خراسان کی سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ گروپ دہشت گرد کارروائیاں کرتے ہوئے افغانستان اور پاکستان میں فرق نہیں کرتا اور دونوں ممالک میں باقاعدگی سے شہریوں، مسلح افواج کے اراکین حتی کہ سکولوں اور عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بناتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button