رفاقت اللہ رزڑوال
وزیراعظم عمران خان کے افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کچھ گروپس کے ساتھ مذاکرات کے بیان کو آرمی پبلک سکول کے شہيد طلباء کے والدین نے متاثرہ خاندانوں کے زخموں پر نمک پاشی قرار دیا ہے جبکہ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جس حکومت میں دہشت گردوں سے نمٹنے کی طاقت نہ ہو تو اسے حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔
9 اکتوبر کو پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ترکی ٹیلی ویژن ٹی آر ٹی ورلڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ افغانستان میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے کچھ گروپس کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور افغان طالبان کا نیا سیٹ اپ اس حوالے سے پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا "میں فوجی حل پر یقین نہیں رکھتا، اگر تحریک طالبان کے گروہ ہتھیار ڈال دیں تو ہم انہیں معاف کر دیں گے اور پھر وہ عام شہری بن جائیں گے، تحریک طالبان کے کچھ گروپس امن اور مفاہمت کیلئے ہماری حکومت سے بات کرنا چاہتے ہیں اور ہم تحریک طالبان کے کچھ گروپس کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔”
عمران نے کہا کہ وہ ہمیشہ اس بات پر یقین رکھتے آئے ہیں کہ مذاکرات ہی مسئلے کا حل ہوتے ہیں اور افغانستان سے متعلق بھی ہمیشہ اُن کی یہی رائے رہی ہے۔
16 دسمبر 2014 کو سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور میں شہید ہونے والے خذیفہ کی ماں عندلیب نے بتایا کہ عمران خان کا بیان قابل مذمت ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو معاف کریں لیکن اُن لوگوں کو معاف نہیں کر سکتے جنہوں نے اُن کے قاتل احسان اللہ احسان کو چھوڑ دیا، "عمران خان کو بالکل حق نہیں پہنچتا کہ ہم سے پوچھے بغیر یہ اقدام اُٹھائیں، میں اُن سے پوچھتی ہوں کہ دہشتگردی میں اُن کا کون ضائع ہوا، اُن کا تو کچھ نہیں ہوا، یہ اُن سے پوچھنا چاہئے جن کے گھر کے سربراہ اور شہزادے لے لئے گئے ہوں، اس میں ہماری 144 تک جانیں گئی ہیں جن میں زیادہ تر ہمارے بچے تھے۔”
ٹی این این سے بات چیت کے دوران عندلیب نے بتایا کہ آج تلک انہیں اپنے بچوں کی شہادت کا انصاف نہیں ملا، وہ خود تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ جسٹس ابراہیم کے سامنے پانچ گھنٹے تک اپنا بیان ریکارڈ کر چکی ہیں لیکن اب تک اے پی ایس شہداء کے والدین کو انصاف نہیں ملا، "پہلے بھی ریاست پاکستان طالبان سے مذاکرات کر چکی ہے، انہوں نے وفاداری نہیں نبھائی، اب پھر انہیں معاف کر دیں تاکہ وہ ہمارے گھر تک آئیں، ایسا نہیں ہو سکتا۔”
سیکورٹی ماہرین نے عمران خان کے بیان کو زمینی حقائق کے برعکس قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ طالبان کے ہاتھوں ملک میں 70 ہزار سے زائد قیمتیں جانیں گنوا چکے ہیں، ”اس مسئلے کا واحد حل اُن کے خلاف آپریشن ہے۔”
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں عندلیب کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے بریگیڈیئر (ر) سعد محمد نے کہا کہ ایسے لوگوں سے بالکل مذاکرات نہیں کرنے چاہئیں جنہون نے بے گناۃ لوگوں کا قتل عام کیا ہو۔ انہوں نے سوال اُٹھایا کہ اس سے پہلے بھی کئی دفعہ مذاکرات کئے جا چکے ہیں، اُن کا کیا نتیجہ نکلا؟ "مذاکرات کی کوئی ضرورت نہیں، پتہ نہیں وزیراعظم کس دُنیا میں رہتے ہیں؟ معذرت خواہانہ رویے کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔”
سعد محمد نے کہا کہ ریاست کے باغی گروہوں کے خلاف ریاست کو کاروائی کرنی چاہئے، اگر نہیں کرتی اور اُن کے لئے رویوں میں لچک رکھتی ہو تو ‘میں اسے ایک ناکام ریاست سمجھتا ہوں۔’
10 ستمبر کو پاکستان کے صدر عارف علوی نے بھی کہا تھا کہ طالبان کی دوسری یا تیسری قیادت نے مذاکرات کیلئے ہم سے رابطہ کیا ہے اور جن پر کوئی دہشتگردی کا مقدمہ نہ ہو اور پاکستان کی آئین کو مانتے ہیں تو ریاست اُن کی معافی کا سوچ سکتی ہے۔
اس کے بعد وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ اگر ٹی ٹی پی معاملات ٹھیک کرنے پر رضامند ہے اور قانون کو ہاتھ میں نہیں لیتی تو ہم اسے معافی دینے کیلئے تیار ہیں۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کب اور کہاں پر ہوئے تھیں؟
یہ بیانات ایسے حالات میں دیئے گئے جب حالیہ دنوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے سیکورٹی فورسز پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔ اسی طرح ماضی میں بھی تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ 7 معاہدے ہوئے ہیں جن کے مثبت نتیجے سامنے نہیں آئے اور ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ ہوتا رہا۔
تحریک طالبان کے باقاعدہ قیام کے بعد اپریل 2004 میں جنوبی وزیرستان میں طالبان کمانڈر نیک محمد کے ساتھ معاہدہ ہوا جسے ‘شکئی معاہدہ’ کا نام دیا گیا مگر وہ ناکام ہوا، پھر اس کے بعد 2005 میں بیت اللہ محسود کے ساتھ معاہدہ ہوا مگر وہ بھی ناکام ہوا۔
اس کے بعد سال 2006 میں ٹی ٹی پی کے ذیلی گروپ کے کمانڈر حافظ گُل بہادر کے میران شاہ امن معاہدے کے نام سے معاہدہ ہوا مگر دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رہیں اور دسمبر 2007 میں بیت اللہ محسود نے ٹی ٹی پی کا باقاعدہ اعلان کیا۔
اسی طرح 2008 میں ضلع خیبر (سابقہ خیبر ایجنسی) کے طالبان کمانڈر منگل باغ اور باجوڑ کے مولوی فقیر محمد کے ساتھ امن معاہدہ ہوا مگر دہشت گردی میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہوا اور پھر ریاست پاکستان کی جانب سے ‘آپریشن شیردل’ کا آغاز کیا گیا۔
آپریشن کے بعد خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں 2008 میں عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوئے اور دونوں کے درمیان فروری 2009 میں ‘سوات معاہدہ’ کے نام سے اتفاق ہوا مگر دہشت گردی کی کارروائیوں میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔
اس کے ردعمل میں حکومت نے مئی 2009 میں سوات میں ‘آپریشن راہ راست’ شروع کر دیا، اس کے بعد پھر مسلم لیگ کے دور حکومت 2014 میں طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا اور مذاکرات کیلئے کمیٹی تشکیل دی گئی مگر 8 جون 2014 کو کراچی ائیرپورٹ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا جس میں 28 افراد جاں بحق ہوئے۔
اس حملے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی اور حکومت نے مذاکراتی کمیٹی تحلیل کر کے ‘آپریشن ضرب عضب’ شروع کیا۔ اس دوران دہشت گردی کی کارروائیاں بھی جاری رہیں اور پھر 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک سکول پر ٹی ٹی پی نے حملہ کیا جس میں 144 افراد شہید کئے گئے۔ شہداء میں اکثریتی تعداد بچوں کی تھی۔
اسی طرح ملک میں نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کیا گیا اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی آئی مگر اب ایک پار پھر حکومت مذاکرات کی خواہاں ہے۔
اس سال دہشتگردی کے کتنے واقعات ہوئے ہیں؟
دہشت گردی اور انتہاپسندی کے واقعات پر نظر رکھنے والے ساؤتھ ایشن ٹیررازم کے مطابق خیبر پختونخوا میں سال 2021 کے پہلے آٹھ ماہ میں 91 واقعات میں 222 افراد ہلاک ہوئے جن میں 65 شہری، 70 سیکیورٹی اہلکار اور 87 دہشت گرد شامل ہیں جبکہ پورے ملک میں اس سال 189 واقعات میں 482 افراد کی ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے، ان میں 171 سویلین، 147 سیکورٹی اہلکار اور 164 دہشت گرد شامل ہیں جبکہ ملک بھر میں 2000 سے لے کر ستمبر 2021 تک 64790 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔