سیاست

طالبان کو معافی: ”یکطرفہ فیصلے کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے”

رفاقت اللہ رزڑوال

خیبر پختونخوا میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قیام امن کیلئے ضروری ہے کہ مزید پرتشدد واقعات اور قتل و غارت کا سلسلہ رُک جائے، ان کے مطابق گزشتہ بیس سالوں کے دوران تقریباً 70 ہزار افراد دہشتگردی کی نذر ہو گئے ہیں تو ان حالات میں صرف پاکستان کی حکومت طالبان کو معافی نہیں دے سکتی بلکہ متاثرہ خاندانوں کو فیصلے میں شامل کرنا ہو گا۔

پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے 9 ستمبر کو پاکستانی نیوز چینل ڈان کے پروگرام میں کہا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جو اراکین جرائم میں ملوث نہیں اور ٹی ٹی پی کے نظریات چھوڑ کر آئین پاکستان کے ساتھ چلنا چاہیں تو حکومت عام معافی کا سوچ سکتی ہے۔

اسی طرح پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ اگر ٹی ٹی پی کے اراکین دہشتگردی میں ملوث نہ ہونے کا وعدہ کریں اور پاکستان کا آئین تسلیم کریں تو انہیں معافی دینے کیلئے غور کرنے پر تیار ہیں۔

لیکن سیاسی اور دفاعی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے امن کی طرف قدم بڑھانا احسن اقدام ہے لیکن اُن کے خیال میں ماضی میں بھی چار دفعہ کالعدم تنظیموں کے ساتھ بات چیت کے نتائج ثمرآور ثابت نہیں ہوئے۔

پشاور یونیورسٹی شعبہ ابلاغیات کے استاد پروفیسر ڈاکٹر عرفان اشرف نے حکومت کی جانب سے جاری کردہ بیان کو خطرناک قرار دے کر سوال اُٹھایا کہ اگر حکومت ٹی ٹی پی کے ارکان کو معافی دے اور پھر وہ دوبارہ قبائلی اضلاع میں رہیں گے تو اس بات کی کیا ضمانت ہو گی کہ وہ قبائلی عوام یا پشتونوں کا استحصال نہیں کریں گے؟

انہوں نے حکومتی اعدادو شمار کا حوالہ دے کر کہا کہ گزشتہ بیس سالوں کے دوران پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا کے عوام دہشت گردی کی نذر ہوئے ہیں تو ان حالات میں صرف حکومت فریق نہیں بلکہ متاثرہ خاندانوں سے بھی رائے لینے کی ضرورت ہے ورنہ یکطرفہ فیصلے کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔

ڈاکٹر عرفان کا کہنا ہے "میرے خیال میں اس وقت پاکستان کی حکومت صرف اپنی ذمہ داریوں سے پہلوتہی کر رہی ہے، نہ وہ دہشتگردی سے متاثرہ گھرانوں کے غم اور دکھ میں دلچسپی رکھتی ہے اور نہ حکومت غیرریاستی عناصر سے جیلیں بھر سکتی ہے لیکن اس خطرناک اقدام سے مجھے خدشہ ہے کہ دوبارہ کہیں نائن الیون کے بعد والے حالات پیدا نہ ہو جائیں۔”۔

پروفیسر عرفان نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے سے قبل حکومت پاکستان اور افغان طالبان کے پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے تین رُکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے تاکہ طالبان اور حکومت کے درمیان صلح کیلئے راہ ہموار کی جا سکے۔

لیکن ڈاکٹر عرفان آگے کہتے ہیں کہ اس سے قبل بھی مذاکرات کی کوششیں کی گئی ہیں جن میں سرہ روغہ، سوات، باجوڑ اور دو دفعہ وزیرستان کے مذاکرات شامل ہیں لیکن امن قائم نہیں ہوا اور حالات اس سے بھی خراب ہوتے چلئے گئے۔
انہوں نے سوال اُٹھایا اور کہا "ریاست واضح کرے کہ کب تک غیرریاستی عناصر کیلئے سافٹ کارنر موجود رہے گا اور انہی شدت پسندوں کے ذریعے دوسری مملکتوں پر قبضہ کریں گے اور اسی طرح پختونخوا اور بلوچستان کی سرزمین استعمال ہو گی؟”

طالبان کے حق میں حکومتی بیان کو دفاعی تجزیہ کار امن کی جانب اہم قدم سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان پہلے بھی امن کی کوششوں میں مصروف عمل ہے جس کی پیروی کر کے افغانستان میں امارات اسلامی نے اس کے بیانیے کی تقلید کرتے ہوئے عام معافی کا اعلان کیا ہے۔

یاد رہے کہ حکومت پاکستان کے طالبان کے حق میں بیان کے بعد بدھ کو جنوبی وزیرستان کی تحصیل لدھا آسمان منزہ کے علاقہ میں سات فوجی جوانوں شہید اور چار زخمی ہوئے ہیں جس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق 15 اگست کو جب افغانستان میں طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو وہاں پر جیلوں سے تحریک طالبان اور القاعدہ کے اہم رہنما چُھڑوا دیئے گئے جس کے بعد شمالی اور جنوبی وزیرستان میں 10 سے زائد دہشتگرد حملوں میں سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنا کر شہید اور زخمی کیا گیا ہے۔

لیکن بریگیڈئر (ر) سید نذیر کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی میں کچھ لوگ ہیں جو بیرونی خفیہ طاقتوں کی مدد سے پاکستان میں امن کی طرف اُٹھنے والے اقدامات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بریگیڈئر (ر) سید نذیر حکومت پاکستان کی جانب سے طالبان کیلئے معافی کے اعلان کی حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں "ٹی ٹی پی میں موجود وہ لوگ جو بچپن میں اُن کے ساتھ شامل ہوئے ہوں، اب وہ نوجوان ہو گئے ہیں اور کسی جرم میں ملوث نہ ہوں تو انہیں معافی دینی چاہئے، اس سے طالبان کی طاقت کمزور ہو جائے گی۔”

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت واقعتاً اس اقدام میں سنجیدہ ہے تو ٹی ٹی پی ارکان کے خاندانوں سے مستقبل میں پرامن رہنے کیلئے ضمانت لیں گے، ایک عرصہ تک اُن کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنا ہو گی اور حکومت اُن کی ذہنی نشوونما کیلئے کام کرے گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button