صحافتی تنظیموں فورتھ پلر انٹرنیشنل، پی ایف یو جے (پروفیشنل) اور ینگ جرنلسٹس ایسوسی ایشن نے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کیخلاف مختلف ٹی وی چینلز پر چلنے والے اشتہار کو مسترد کرتے ہوئے اس یکطرفہ میڈیا مہم کیخلاف مسابقتی کمیشن سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین اور وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب سے مختلف صحافتی تنظیموں فورتھ پلر انٹرنیشنل، پی ایف یو جے ( پروفیشنل) اور ینگ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے عہدیداران نے ملاقات کی۔
صحافتی تنظیموں کے عہدیداران نے کہا کہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے بارے میں مختلف ٹی وی چینلز پر اشتہار چل رہا ہے جس میں کہا جا رہا ہے کہ تمام صحافتی تنظیموں نے میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ تمام صحافتی تنظیموں نے اس مجوزہ بل کو مسترد نہیں کیا۔
عہدیداران نے کہا کہ ماضی میں حکومتیں میڈیا مالکان سے بلیک میل ہوتی رہی ہیں، پاکستان تحریک انصاف کی واحد حکومت ہے جس نے میڈیا ورکرز کے حقوق کے تحفظ کے لئے قدم اٹھایا، چند تنظیموں کو میڈیا مالکان کے مفاد کا تحفظ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے لہذا اس یکطرفہ اشتہار اور میڈیا مہم کے خلاف مسابقتی کمیشن آف پاکستان سے رجوع کریں گے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے کہا کہ جدید میڈیا کا سب سے بڑا چیلنج جعلی بیانیہ کو اصل بیانیہ سے الگ کرنا ہے، موجودہ تمام قوانین ڈیجیٹل میڈیا کے انقلاب سے پہلے تیار ہوئے، اب موبائل فون ہی ہمارا اخبار، ٹی وی اور سوشل میڈیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے بارے میں میڈیا مالکان کے دو اعتراضات ہیں کہ سوشل میڈیا اور اخبار کے لئے علیحدہ علیحدہ اتھارٹیز ہونی چاہئی، ”میڈیا مالکان گارنٹی فراہم کر دیں کہ سوشل میڈیا کی نیوز اخبار میں اور اخبار کی نیوز سوشل میڈیا پر شائع نہیں ہو گی۔”
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کیلئے ہم نے پانچ ممالک کے قوانین کو اسٹڈی کیا ہے، اس اتھارٹی میں میڈیا کمپلینٹس کمیشن اور میڈیا ٹربیونل دو ادارے ہوں گے، ان پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہونا چاہئے، تقرریوں کے لئے علیحدہ آزاد کمیشن قائم کیا جائے گا۔
چوہدری فواد حسین نے کہا کہ ہم نے میڈیا اداروں کو 70 کروڑ روپے کی ادائیگیاں کی ہیں تاہم اس کے باوجود وہ اپنے ورکرز کو تنخواہیں ادا نہیں کر رہے۔ ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ کا ذکر کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جب 2018ء میں وہ پہلی بار وزیر اطلاعات بنے تو اس وقت انہوں نے وزارت خزانہ کو خط لکھا تھا کہ ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے، اس وقت یہ چار ارب روپے تھی اور صرف تین سالوں میں یہ 25 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیٹ فلیکس اور ایمازون پاکستان سے تقریباً 250 ملین ڈالرز وصول کرتے ہیں، ہم ان پلیٹ فارمز پر پاکستانی مواد شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ موجودہ حکومت نے پہلی مرتبہ ڈیجیٹل میڈیا کے لیے فنڈز مختص کئے ہیں، میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی بل کی فیک نیوز اور صحافیوں کے حقوق سے متعلق شقوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، ”پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بل کی باقی شقوں پر تجاویز کا خیرمقدم کریں گے۔”
تمام صحافتی تنظیموں نے اتھارٹی کے قیام کو مسترد کیا ہے۔ شیری رحمن
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمان نے میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام پر اپنے بیان میں کہا کہ ہے کہ تمام صحافتی تنظیموں اور میڈیا ہائوسز نے اتھارٹی کے قیام کو مسترد کیا ہے، اتھارٹی کے جبری قیام کے خلاف ملک بھر میں صحافی احتجاج کر رہے ہیں،حکومت مخالفت کے باوجود کابینہ سے اتھارٹی کے قیام کی منظوری لے رہی ہے، حکومت صحافتی تنظیموں کی مشاورت اور رضامندی کے بغیر اتھارٹی مسلط کرنا چاہتی۔
شیری رحمان نے کہا کہ اتھارٹی کے قیام کا مقصد میڈیا کو کنٹرول کرنا اور اظہار کی آزادی پر قدغن لگانا ہے، آزاد میڈیا اور صحافت پر یہ حملہ غیرقانونی اور غیر آئینی ہے، تحریک انصاف کا دور سنسرشپ کی بدترین مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا، پاکستان پہلے ہی ورلڈ پریس فریڈم اینڈیکس میں 145 ویں درجے پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ تھارٹی کے قیام کے بعد ملک میں میڈیا سنسرشپ کا بدترین دور شروع ہو گا، آزاد صحافت اور نجی میڈیا کو حکونت کی مرضی سے ریگیلیوٹ کرنے کی منصوباندی کی ہر فورم پر مخالفت کرے گے، حکومت اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ واپس لے۔