سدرا آیان
ملک بھر کی طرح مردان میں بھی آزادی کا جشن شایان شان طریقے سے منائی جا رہی ہیں ۔ اس حوالے سے مردان میں جگہ جگہ جشن آزادی کے سٹالز لگے ہوئے ہیں جہاں سے بچے اور بڑے مختلف قسم کی چیزیں خرید رہے ہیں ۔
اس طرح ہر دکان دار نے اپنے دکان کے سامنے بڑے بڑے پاکستانی پرچم لگائے ہوئے ہیں۔ راستے پہ گزرتی ہر گاڑی ، سائیکل اور موٹر سائیکل پر بھی پاکستانی پرچم لگے ہوئے ہیں ۔ لڑکیوں نے سفید اور سبز رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں ،کچھ لوگوں نے سفید کپڑوں پر سبز ہلالی پرچم کا چھوٹا سا بیج لگایا ہوا ہے ۔ کچھ بچوں نے سبز رنگ کے چشمے پہنے ہوئے ہیں جبکہ کچھ بچوں نے سبز و سفید فیس ماسک پہن رکھے ہیں ساتھ میں سیٹی بجانے والے کھلونے یعنی پوں پاں سے سیٹیاں بجا کر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ گاڑیوں اور پارکس میں تیز آواز کے ساتھ ملی نغمے سنے جارہے ہیں جبکہ سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی جشن آزادی کے حوالے سے تقریبات منقعد کی گئی ہیں ۔
بچوں کا کہنا ہے کہ وہ 14 اگست کے دن بھی عید کے دن جیسے خوش ہوتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب بچے نقلی پستول اور گاڑیاں بہت شوق سے خریدتے لیکن اب اسکی جگہ پوں پاں نے لے لی ہے ۔ یہ بچوں کا وہ ہتھیار ہے جس سے وہ کسی بھی قسم کی کوئی بھی بات منوا سکتے ہیں ۔
اس موقع پر خواتین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی وجہ سے کسی بھی راستے پر آرام سے نہیں جا سکتی کیونکہ ہر جگہ جشن آزادی کے سٹالز لگے ہوئے ہیں اس لئے ان کے بچے چیزیں لینے کی ضد کرتے ہیں اور انہیں گاڑی سے اترنا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے خود بھی جشن آزادی کے لئے لیے سفید و سبز رنگ کے کپڑے خریدے اور جشن آزادی کا دن اچھی طرح سے منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
اس موقع پر سٹالز پر سامان بیچنے والوں نے کہا کہ یہ سٹالز انہوں نے چار تاریخ سے لگائے ہیں اور یہاں پر بڑے اپنے ساتھ بچے لاتے ہیں۔ بچے کھلونے وغیرہ لیتے ہیں جبکہ بڑے اپنی گاڑیوں اور دکانوں کے لئے پاکستانی پرچم لے رہے ہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ بچیاں زیادہ تر گڑیاں جبکہ بچے پستول اور پوں پاں لے رہے ہیں اس کے علاوہ باقی کھلونے بھی اچھی خاصی تعداد میں فروخت ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان سٹالز میں ان کا منافع زیادہ نہیں لیکن انھیں دلی خوشی محسوس ہوتی ہے کیونکہ کسی اور کے پاس اگر ایک بھی پرچم ہو تو وہ خوشی محسوس کرتا ہے جبکہ ہمارے سامنے تو ڈھیر سارے پاکستانی پرچم پڑے ہوتے ہیں ۔
ان میں سے ایک نے کہا کہ پاکستان ایک آزاد وطن ہے اور ہم سب کو اس کی قدر کرنی چاہیے ۔اس دن کو خوب خوشی سے منانا چاہیے اور اپنی اس خوشی میں ہر پاکستانی کو شامل کرنا چاہیے۔
یہاں پر میں یہ بھی لکھنا چاہتی ہوں کہ وہ بچے بھی بہت خوش ہیں جو چودہ اگست کا مطلب جانتے نہیں لیکن پھر بھی چودہ اگست چودہ اگست کہتے پھر رہے ہیں۔
میں ایک گھر گئی جہاں میں نے ایک ایسے بچے کو دیکھا جو انتہائی چھوٹا تھا۔ اتنا کہ میں نے اسکی تصویر بناتے وقت اسے ویکٹری ✌ بنانے کا کہا وہ اتنا چھوٹا تھا کہ اسکی انگلیوں سے ویکٹری نہیں بن پا رہی تھی لیکن پھر بھی اسکے ہاتھ میں پرچم تھا کہہ رہا تھا یہ میں نے 14 اگست کے لیے لیا ہوا ہے ۔
اسکی بات سن کر مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ ہمارے بچوں میں حب الوطنی خود پاکستان کو پہچان لینے کے بعد پیدا نہیں ہوتی جبکہ وہ اپنے وطن سے محبت اپنے بڑوں سے سیکھ رہے ہیں اور یہ حب الوطنی انکی رگوں میں اتر رہی ہے ۔ یہ ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ ہمارے بچے اتنی ناسمجھی کی عمر میں بھی جشن آزادی کو لیکر اتنے خوش ہورہے ہیں ۔ خدا کریں کہ یونہی ہم اپنے وطن سے محبت کرتے رہیں اور ہمیشہ ہمارا وطن قائم و دائم رہے!