خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

گھر کے مرد کسی بھی معاملے میں خواتین کی رائے کو اہمیت نہیں دیتے: شمیم بی بی

 

اسماء گل

جب بھی خواتین کو امن اور ترقی کی کاموں میں شامل ہونے کا ملا تو انہوں نے یہ ثابت کیا کہ جنگ کی جگہ امن کا قیام ،معاشی ترقی اور فوری انصاف کو یقینی بنانے کے لیے سرگرم رہا ہے جو مستقل امن کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ ملک میں ترقی اور امن و سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ زندگی کے تمام شعبہ جات میں خواتین کو ملحوظ خاطر جائے کیونکہ اسی طرح انکو معاشی اور معاشرتی طور پر درپیش مسائل پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی شمیم بی بی کا کہنا ہے کہ ان کے گھر کے مرد حضرات کسی بھی معاملے میں خواتین سے کوئی مشورہ نہیں کرتے اور نہ گھر کے اندرونی معاملات میں ان کی بات کو کوئی ترجیح دی جاتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ہم رشتہ دار، پڑوسیوں او باقی ارد گرد کی خواتین سے سنتے آرہے ہیں کہ گھر کے امور ہو یا باہر کے معاملات سب میں انکے گھر کے مرد حضرات انکی رائے کو خاصی اہمیت دیتے ہیں جبکہ کہ ہمارے ہاں يه معاملہ اس کے برعکس ہے۔

شمیم بی بی کا مزید کہنا ہے کہ انکا کا کھانا پینا، اوڑھنا پہننا کہی آنے جانے کی بات ہو کسی سے ملنا جلنا ہو حتی کہ اگر بات رشتے کرنے یاکرانے کی آجائیں تو وہ فیصلے بھی ہمارے گھر کے مرد خود ہی کرتے ہیں اور زندگی کے اتنے بڑے فیصلے میں بھی خواتین کو خاطر میں نہیں لایا جاتا کیونکہ وہ خواتین کو نا سمجھ کہتے اور سمجھتے ہیں۔ شمیم بی بی کا گلہ ہے کہ انکے شوہر او باقی سسرالیوں کي دیکھا دیکھی اب انکے بیٹے بھی خواتین کے حوالے سے وہی منفی سوچ اپنائے ہوئے ہیں۔
خواتین کا فیصلہ سازی میں شمولیت اور کردار کے حوالے سے جب کوہاٹ روڈ کے جامع مسجد کے امام ضیاءاللہ چترالی سے پو چھا گیا تو انکا بتانا تھا کہ سنت سے یہ بات ثابت ہو چکی ہیہے کہ دینی اور دنیاوی معاملات میں اپنے گھر کی خواتین سے صلاح و مشورہ کرنا جائز ہے لیکن اگر مرد ایسا نہ بھی کرے تو اس پر بھی کوئی قدغن نہیں کیونکہ اللہ تعالی نے مردوں کو خواتین کے مقابلے میں با اختیار گردانہ ہے اور مردوں پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں رکھی گئی کہ وہ ضرور خواتین کو ان تمام معاملات جن میں انکو شریک کرنا ضروری بھی نا ہوشامل کرے اور دوسری بات اگر مرد کو یہ لگے کہ خواتین کے ساتھ مشورہ کرنے میں خیر و عافیت نہیں یعنی گھر کی بات ہابر جانے کا خدشہ ہو تب بھی مشورہ کرنا ضروری نہیں۔

پشاور یونیورسٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ظفر خان کا کہنا ہے کہ جس معاشرے میں,خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرے تو وہ معاشرہ ترقی کرتا ہے اور جب انکی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا اور اہم فیصلوں میں ان سے رائے نہیں لی جائے گی یا انکی بات کو اہمیت نہ دی جائے تو پھراس معاشرے کی خواتین مختلف قسم کی نفسیاتی اور معاشرتی مسائل کا شکار ہوسکتی ہیں آج کل یہ بات واضح ہے کہ جس معاشرے میں مرد خواتین کو اہمیت نہ دے تو وہ ترقی کے ہر میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
اس کے برعکس اگر انکی صلاحیتوں کو بروکار لایا جائے اور زندگی کے ہر ڈگر میں مرد اور خواتین اکٹھے کام کرنے کا موقع دیا جائے تو وہ معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ اس کی مثال امریکہ اور یورپ کو ہی دیکھ لے وہاں پر ہر جنس کے افراد اکٹھے معاشی سیاسی، تعلیمی اور سائنسی میدان میں اپنے خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور یہاں ہم اپنی خواتین کو گھریلو معاملات تک میں اہمیت نہیں دیتے یہاں تک کہ وہ اپنی منگنی, شادی ،زندگی اور نوکری کے بارے میں فیصلہ کر سکے۔

ظفر خان کا مزید کہنا تھا کہ فیصلہ سازی کے وقت خواتین کے فیصلوں کو بھی اہمیت ملے توان کی ذہنی معاشی اور معاشرتی حالات بہترہو سکتے ہیں۔
ماہر نفسیات کائنات کا خواتین کی فیصلہ سازی کے حوالے سے کہنا ہے کہ جن خواتین کو گھر میں عزت ملتی ہو اسکی بات کو اہمیت دی جاتی ہو وہ دوسری خواتین کی نسبت ذہنی طور پر زیادہ صحت مند ہوتی اور اپنے توانائی کو بہتر انداز میں بروئی کار لاسکتی ہیں، عزت ، محبت اور اہمیت کا احساس اسے مضبوط بنائے رکھتی ہیں اور ہر چیز کے متعلق مثبت سوچتی ہے اور یہی سوچ وہ اپنے آنی والی نسلوں میں بھی منتقل کرتی چلی جاتی ہیں جبکہ اسکے برعکس گھر کے افراد کی طرف سے نظر انداز کی جانی والی خواتین احساس کمتری کا شکار ہوجاتی ہیں بلا روک ٹوک ، ڈانٹ ڈپت اور بات بات پر نقص نکالنے سے وہ ذہنی طور پہ مفلوج ہوجاتی ہیں اور انکی شخصیت مسخ ہوکر رہ جاتی ہیں۔

ایک عورت جو اپنے شوہر کی طرف سے ہر وقت تنقید اور اعتراضات کا شکار ہوتی ہے اسے گالیاں ملتی ہے شوہر اسکے ساتھ مار پیٹ کرتا ہے اور جب ان کے بچے اپنی ماں کی یہ حالت دیکھتے ہیں تو اپنی ماں کے ساتھ ساتھ وہ بھی ایک ذہنی اذیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور مستقبل میں نہ وہ معاشرے کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں اور اسی احساس کے ساتھ ان کی پرورش ہو جاتی ہے جو ان کے باپ کی طرف سے ان کی ماں کو ملا ہو لہذا زندگی کی کسی بھہ معاملے میں عورت کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ انکی صلاحیتوں سے انکار ممکن ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button