”منصوبہ بندی کے بغیر بچوں کی پیدائش سے ماؤں کی اموات میں اضافہ ہوتا ہے”
محراب شاہ آفریدی
آبادی کے عالمی دن کے حوالے سے پاپولیشن کونسل اور اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے آبادی (یو این ایف پی اے) کے تعاون سے منعقدہ ایک قومی سطح کی میٹنگ میں شرکاء اس امر پر باہم متفق ہوئے کہ صحت، تعلیم اور معیشت کے اہداف کے حصول کیلئے پاکستان کو اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی میں استحکام لانا ہو گا۔
میٹنگ میں سینیٹر ولید اقبال، سینیٹر ڈاکٹر زرقا سہروردی تیمور، سول سوسائٹی کے نمائندوں، تولیدی صحت کے ماہرین، ماہرینِ تعلیم اور صحافیوں نے شرکت کی۔
آبادی کے عالمی دن پر تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کے اثرات کے حوالے سے ہونے والی قومی سطح کی میٹنگ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے سینیٹر ڈاکٹر زرقا سہروردی تیمور، ممبر سینٹ سٹینڈنگ کمیٹی آن نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن کا کہنا تھا کہ "تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی میں استحکام لانے کیلئے حکومت مذہبی رہنماؤں، صحافیوں اور نوجوانوں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم رکھتی ہے۔”
آبادی کے مسائل کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے ہر سال 11 جولائی کو پوری دنیا کے طرح پاکستان میں بھی آبادی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس سال آبادی کے عالمی دن کا موضوع ”حقوق اور اختیار دینا ہی حل ہے: چاہے آبادی میں اضافہ لانا ہو یا کمی کرنی ہو، شرحِ پیدائش میں تبدیلی کا حل تولیدی صحت اور تولیدی صحت کے حقوق کو ہر فرد تک پہنچانے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا” ہے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سینیٹر ولید اقبال نے کہا کہ ہم تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کیلئے پُرعزم ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں میں اس پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں 70 لاکھ شادی شدہ جوڑے ایسے ہیں جو اپنے بچوں کے درمیان مناسب وقفہ چاہتے ہیں لیکن خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات تک رسائی میں کمی کی وجہ سے ایسا نہیں کر پاتے۔ خاندانی منصوبہ بندی کا حق انسانی وقار کے حق کا بنیادی جزو ہے۔
سینیٹر ولید کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے لوگوں کی آگاہی میں اضافے کیلئے جامع اور مربوط آگاہی مہم چلانے کے ساتھ ساتھ کئے گئے فیصلوں پر عمل درآمد بھی ہونا چاہیے تاکہ آئین کے مطابق تمام شہریوں کی فلاح کے حق کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔
اس موقع پر آبادی کے عالمی دن کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے پاپولیشن کونسل کے سینئر ڈائریکٹر پروگرامز ڈاکٹر علی میر نے پاکستان کی عوام کی تولیدی صحت کے حق کو ترجیحات میں شامل کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر میر نے کہا کہ دنیا کے بہت سے ممالک کی طرح تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پاکستان کیلئے بھی تشویش کا باعث ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ”ماضی میں معاشی بحرانوں اور ہنگامی صورتحال میں خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات تک رسائی کی وجہ سے بچوں کے درمیان مناسب وقفہ قائم رہا لیکن کرونا وائرس کی عالمی وباء کے دوران لاک ڈاون کے ساتھ ساتھ خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات تک رسائی میں کمی کی وجہ سے ملک کے غریب ترین طبقے میں خواہش کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا، تولیدی صحت کے حقوق کی فراہمی کی یقین دہانی اور تولیدی صحت کی سہولیات کی فراہمی میں تسلسل کسی بھی عالمی وباء یا بحران سے نمٹنے کا مرکزی نکتہ ہونا چاہیے۔”
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے اور کونسل آف کامن انٹرسٹ (سی سی آئی) کی سفارشات میں دیئے گئے اہداف کے حصول کیلئے آبادی اور وسائل کے درمیان توازن پیدا کرے۔
آبادی کے حوالے سے پاکستان کی صورتحال کا جائزہ پیش کرتے ہوئے پاپولیشن کونسل کی پراجیکٹ ڈائریکٹر سامیہ علی شاہ نے پاکستان میں تازہ ترین شرحِ پیدائش کے اعدادوشمار پیش کئے۔ انہوں نے بتایا کہ بار بار حمل اور منصوبہ بندی کے بغیر بچوں کی پیدائش سے ماؤں کی بے وقت اموات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر مانع حمل طریقوں کے استعمال کی موجود شرح 34 فیصد سے بڑھ کر 55 فیصد ہو جائے تو پاکستان میں ہر سال بوجہِ حمل و زچگی مرنے والی 4300 ماؤں کو بچایا جا سکتا ہے۔
سامیہ شاہ کا مزید کہنا تھا کہ تولیدی صحت میں بہتری لانے کیلئے خاندانی منصوبہ بندی کی معیاری سہولیات اور معلومات کی فراہمی ضروری ہے جس کیلئے خاندانی منصوبہ بندی میں سرمایہ کاری کرنے کی مربوط کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ بار بار ہونے والے حمل اور ماؤں کی اموات سے بچا جا سکے۔
پاکستان میں مردو خواتین کی تولیدی صحت کے حقوق کی فراہمی کا جائزہ لینے کیلئے میٹنگ میں تولیدی صحت کے حقوق کی ماہر وکیل سارہ ملکانی نے بھی خطاب کیا۔ سارہ ملکانی نے تولیدی صحت کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے قومی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی جانب سے کئے گئے معاہدوں اور ان کے نفاذکی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں تولیدی صحت کے حقوق کے حصول کیلئے شادی شدہ جوڑوں، خصوصاً خواتین کو بااختیار بنانا ہو گا تاکہ وہ ذمہ داری کے ساتھ اپنے خاندان کی تعداد اور اپنی صحت کا فیصلہ کر سکیں۔
میٹنگ کے دوران ہونے والے مباحثے میں سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اس امر پر روشنی ڈالی کہ بہبودِ آبادی میں سرمایہ کاری پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی کیلئے کتنی اہمیت کی حامل ہے۔ انہوں نے ملکی آبادی میں اضافے میں استحکام لانے کیلئے لڑکیوں کی تعلیم اور ملازمت میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا، ملک بھر میں بڑے پیمانے پر آگاہی مہم کیلئے میڈیا کے کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی تاکہ لوگوں کو آبادی اور وسائل کے درمیان توازن کی اہمیت سے سے آگاہی دی جا سکے۔
میٹنگ کے شرکاء نے پالیسی سازوں، حکومتی اداروں اور عام لوگوں میں پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو ترجیحات میں شامل کرنے کیلئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔
اپنے اختتامی کلمات میں یو این ایف پی پاکستان کے نمائندے ڈاکٹر بختیار کادرو نے آبادی میں اضافے میں استحکام لانے کیلئے حکومتِ پاکستان کی کوششوں میں تعاون کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ ڈاکٹر بختیار کادرو نے پاپولیشن پلاننگ کیلئے بجٹ میں اضافے، آبادی کے نئے قومی بیانیے کی میڈیا کے ذریعے ترویج اور پرائیوٹ سیکٹر کے اشتراک سے سی سی آئی کی سفارشات کی تکمیل پر زور دیا۔