پاکستان میں دوران زچگی اموات کی شرح بلند کیوں ہے؟
محراب شاہ آفریدی
صحت کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان زچگی کے دوران ماؤں کی شرح اموات کے حوالےسےجنوبی ایشیائی ممالک میں بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے جہاں ہرروز 30جبکہ ہر ایک لاکھ ماؤں میں سے 186مائیں موت کے منہ میں جارہی ہیں جبکہ 221ملین آبادی کے ساتھ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیاجہاں آبادی کی شرح 2.4فیصد ہے۔ پاکستان میں حمل کی پیچیدگیوں کےدوران سالانہ 11ہزار مائیں اور ہر ایک ہزار زندہ پیدا ہونے والے نوزائیدہ بچوں میں سے 42بچے دنیا میں سانس لیتے مر جاتے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار صحت کے عالمی دن کی مناسبت سے پاکستان پاپولیشن کونسل کےزیر اہتمام منعقدہ میڈیا مشاورتی ویڈیو لنک کانفرنس میں ڈاکٹر علی محمد میر ، سامیہ علی شاہ اور ڈاکٹر شہزاد علی خان نے پاکستان میں فیملی پلاننگ کی صورتحال اور ماں و بچہ کی صحت کی صورتحال سےملک بھر کے صحافیوں کو اگاہ کرتے ہوئے کیا.
میڈیا کانفرنس میں ملک بھر سے صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی شرکاء کا کہنا تھا کہ پاکستان 221ملین کی آبادی کے ساتھ دنیا کا پانچواں سب سے بڑا آبادی والا ملک بن گیا ہے جہاں دن بدن ماں اور بچے کی صحت کی صورتحال خراب ہو تی جارہی ہے اور پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں پورے جنوبی ایشیاء میں ماؤں کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے پاکستان میں ہر ایک ہزار ماؤں میں سے 186مائیں بچوں کی پیدائش کے عمل کےدوران موت کا شکار ہو جاتی ہیں جس کی بنیادی وجہ بچوں میں مناسب وقفہ کا نہ ہونا اور دوران حمل خواتین کی مناسب دیکھ بھال اور خوراک کا خیال نہ رکھنا ہے جس سے 44فیصد خواتین میں خون کی کمی،80فیصدمیں وٹامن ڈی کی کمی 27فیصد میں وٹامن سی کی کمی اور 18فیصد کا وزن کم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں حمل سے متعلق پیچیدگیوں کے باعث روزانہ 30مائیں مر رہی ہیں پاکستان جنوبی ایشیاء میں زچگی کی شرح اموات کے حوالے سے سرفہرست ہے جہاں سالانہ 11سو مائیں حمل کی پیچیدگیوں کےدوران مر جاتی ہیں ایسی خوفناک صورتحال نہ تو دنیا میں کہیں ہے اور نہ ہی جنوبی ایشیائی ممالک میں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستا ن میں ماؤں کے ساتھ ساتھ پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات بھی سب سے زیادہ ہے پاکستان میں ہر گھنٹے میں 50سے زائد شیر خوار بچے جبکہ ہر ایک ہزار میں سے 42بچے موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ ہر ایک ہزار میں سے 62شیر خوار بچے اپنی عمر کا پہلا سال ہی مکمل نہیں کر پاتے ،پاکستان میں مانع حمل طریقوں کے استعمال کی شرح 34 فیصد ہے،اور ملک میں ایک عورت سے پیدا ہونے والے بچوں کی شرح 3.6فیصد ہے جو دیگر ایشیائی ملک سے زیادہے یہ شرح سعودی عرب میں 2.7 ، انڈونیشیا میں 2.5 ، بنگلہ دیش میں 2.2 اور ایران میں 1.8 ہے۔ پاکستان کی آبادی میں اضافے کی شرح 2.4 ہے جو دوسرے ایشیائی ممالک جیسے انڈونیشیا ، ملائیشیا ، بنگادیش ، ہندوستان اور ایران کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد سے اب تک پاکستان کی آبادی میں 7 گنا اضافہ ہوا ہے۔ اگر ہم اس رفتار سے آبادی بڑھاتے رہے تو 2050 تک ہماری آبادی 300 ملین سے زائد تک پہنچ جائے گی۔
ڈاکٹر شہزاد علی خان نے کہا کہ خاندانی منصوبہ بندی میں سرمایہ کاری کا فقدان اور پاکستان کا فی کس خاندانی منصوبہ بندی کا خرچ 2018-19 میں ایک ڈالر سے کم تھا۔
میڈیا کانفرنس میں ملک بھر سےشریک صحافیوں کےسوالوں کے جواب میں مس سامیہ علی شاہ اور ڈاکٹر علی محمد میر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بیٹے کی خواہش میں خاندان کا سائز بڑھتا جاتا ہے اور ماں کی صحت تباہ ہوتی جاتی ہے بچوں میں وقفہ کم ہونے کی وجہ سے ماں اور بچے کی صحت متاثر ہوتی ہے اور کورونا وائرس کی وباء کے دوران خواتین کو حمل کے دوران اور زچگی کے لئے بہت سے مشکلات و پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ان کے علاج معالجہ میں تاخیر ہوئی جس سے مزید پیچیدگیوں میں اضافہ ہوا کیونکہ زیادہ تر عملہ کورونا وباء کی روک تھام میں خدمات انجام دے رہا تھا ہسپتالوں کے آپریشن تھیٹر بند تھے عملے محدود تھا اور سہولیات کا فقدان تھا.
ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات کو بڑھایا جائے لیڈی ہیلتھ ورکز کو جس کام لئے بھرتی کیا گیا تھا ان سے وہ ہی کام لیاجائے خواتین کو انکے گھروں میں زچکی کی تمام سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ ملک میں ماؤں اور بچوں کی شرح اموات کو کم کیا جاسکے ۔