پاکستان دل کے اسٹنٹ بنانے والا دنیا کا اٹھارواں ملک بن گیا
پاکستان مقامی طور پر کارڈیک اسٹنٹ بنانے والادنیا کا 18 واں اور مسلم دنیا کا دوسرا ملک بن گیا۔ مقامی طور پرپہلی بار دل کے اسٹنٹ بنانے کا اعزاز نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) نے حاصل کیا ہے، اور امید کی جارہی ہے کہ ملک میں امراض قلب کے مریضوں کو ارزاں قیمت میں دل کے اسٹنٹ دستیاب ہوں گے۔
واضح رہے کہ ہمارے جسم کی شریانوں میں بہنے والے خون کا بہاؤ اگر کسی وجہ سے ممکن نہ رہے تو ڈاکٹر آپریشن کے ذریعے ایک مصنوعی نالی ڈال کر خون کی روانی بحال کرتے ہیں، اسی مصنوعی نالی کو اسٹنٹ کہا جاتا ہے۔
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ہمیں پاکستانی ماہرین اور سائنسدانوں پر فخر ہے جنہوں نے کورونا کی وبا کے دوران ملک میں میڈیکل ٹیکنالوجی کی ایک نئی صنعت کھڑی کردی۔
فواد چوہدری کے مطابق پاکستان میں 40 فیصد اموات دل کے امراض کی وجہ سے ہوتی ہیں اور اسٹنٹ دل کے امراض کے علاج میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے،ان کا کہنا تھا کہ مقامی سطح پر اسٹنٹ کی تیاری سے اس کی قیمت میں بھی کمی آئے گی اور غریب مریضوں کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے مزیدکہا کہ نسٹ کی جانب سے بالکل یورپی معیار کے اسٹنٹ تیار کیے جارہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹرفیصل سلطان نے نسٹ کی کاوش کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اب پاکستان میں دل کے مریضوں کو معیاری اور کم قیمت اسٹنٹ دستیاب ہوں گے۔
خیال رہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے رواں سال مارچ میں نسٹ کو کارڈیک اسٹنٹ بنانے کا لائسنس جاری کیا تھا جبکہ نسٹ کی جانب سے اس پر گذشتہ 2 سالوں سے کام جاری تھا۔
یاد رہے کہ 2017 میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ملک میں غیر معیاری اسٹنٹس کا ازخود نوٹس لیا تھا،جس کے بعد نہ صرف اسٹنٹ کی قیمتوں پر کنٹرول کیا گیا تھا بلکہ چیف جسٹس نے مقامی طور پر اسٹنٹ کی تیاری کے معاملے پر بھی ماہرین سے جواب طلب کیا تھا۔
وزیر اعظم عمران خان کل نسٹ یونیورسٹی کا دورہ کریں گے اور اسٹنٹ بنانے کے منصوبے کا افتتاح کریں گے۔ وزیر اعظم نسٹ یونیورسٹی کی جدید لیب کے دورے کے ساتھ ساتھ طلبہ اور انجینئرز سے بھی ملاقات کریں گے۔ مقامی طور پردل کے اسٹنٹ بنانے سے 8 ارب روپے کی سالانہ بچت ہوگی۔