سلمان یوسفزے
بلوچستان میں تاجربرداری اور مقامی افراد کے احتجاجی دھرنے کے باعث چمن شاہراہ کی بندش سے سینکڑوں ٹرک ڈرائیورز گزشتہ ایک ماہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔
بلوچستان اور افغانستان کے درمیان چمن بارڈر کو پاکستان حکومت نے مارچ میں کورونا وباء کے پیش نظر دیگر سرحدات سمیت بند کر دیا تھا جو کہ گزشتہ مہینے دوبارہ کھولا گیا لیکن حکومت نے آمدورفت کے لئے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط عائد کر دی۔
تاہم چمن کی تاجربرداری اور ٹرانسپورٹرز نے حکومت کی شرط مانے سے انکار کرتے ہوئے گزشتہ 45 دنوں سے چمن شاہراہ پر احتجاجی دھرنا شروع کیا ہے جس میں مظاہرین حکومت سے چمن بارڈر پر آمد و رفت کے دوران پاسپورٹ رکھنے کی شرط کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
چمن کے مقامی شحص نیاز علی کے مطابق کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن سے پہلے روزانہ دس ہزار سے پندرہ ہزار تک مزدور، تاجر، ڈرائیورز او کاروباری افراد صبح چمن کے راستے سپین بولدک جاتے اور شام کو واپس آتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ چمن کے زیادہ تر لوگوں سپین بولدک میں کاروبار کرتے ہیں جہاں ان لوگوں کی اپنی دوکانیں اور گودام ہیں لیکن جب سے حکومت نے پاسپورٹ رکھنے کی شرط رکھی ہے تب سے نہ تو کوئی مزدور نہ تاجر نہ ڈرائیور اور نہ ہی کوئی کاروباری شخص وہاں گیا ہے جس کی وجہ سے وہ کافی مشکلات کا شکار ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلے تو کورونا وائرس کی وجہ سے چمن بارڈر کو چار ماہ تک بند رکھا گیا اور اب پاسپورٹ رکھنے کی شرط رکھ دی گئی جس سے مقامی افراد اور تاجر برداری شدید مشکلات سے دوچار ہوئی ہے۔
اس حوالے سے بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو نے کہا ہے کہ حکومت نے مارچ سے کورونا وائرس کے پیشں نظر دیگر ہمسایہ ممالک کی طرح افغانستان سے منسلک چمن بارڈر کو بھی بند کیا تھا لیکن بعد میں اسے کھول دیا گیا اور ساتھ یہ شرط رکھی گئی کہ چمن بارڈر پر آمد ورفت کرنے کے لئے مسافروں اور تاجر برداری کو پاسپورٹ ساتھ رکھنا ہو گا ورنہ کسی کو بھی بغیر پاسپورٹ بارڈر پر گزرنے یا داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے بارڈر پر آمد و رفت اور تجارت کے لئے پاسپورٹ رکھنے کی شرط رکھی ہے اور کسی کو بھی قانونی اسناد او پاسپورٹ کے بغیر چمن پر آنے جانے کی اجازت نہیں۔
درہ آدم خیل سے تعلق رکھنے والے عالم زیب بھی ان ڈرائیورز میں شامل ہیں جو پچھلے ایک ماہ سے چمن شاہراہ کی بندش سے وہاں پھنس گئے ہیں۔
ٹی این این کو بھیجے گئے آڈیو پیغام میں عالم زیب نے کہا ہے کہ ان سمیت ہزاروں کی تعداد میں ڈرائیورز پچھلے ایک ماہ سے چمن شاہراہ کے قریب پڑے ہوئے ہیں۔
ایک اور ڈرائیور نے حکومت سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہی وہ لوگ ہیں جو سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن افسوس کسی کو ہماری فکر ہی نہیں، ہم پچھلے ایک ماہ سے مشکلات میں ہیں لیکن کوئی پرسان حال ہی نہیں۔
انہوں بتایا کہ ہمارے پاس خرچہ پانی ختم ہو گیا ہے اور قرض لینے پر مجبور ہو گئے ہیں، اس کے علاوہ ڈیڑھ لاکھ روپے کی قسط بھی شارٹ ہو گئی ہے، کیسے ہو گا یہ سب ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا، حکومت مہربانی کر کے ہمیں اس عذاب سے بجات دلائے۔
ان کے بقول ویران علاقے میں ان کی گاڑیوں سے چوری بھی ہوئی ہے لیکن اس کے باجود حکومت نے اب تک ان کا حال نہیں پوچھا اور نہ ہی اعلی حکام ان کو تحفظ دینے میں کامیاب رہے ہیں اور انہیں اندیشہ ہے کہ اگر یہ راستہ یوں ہی بند رہا تو شائد وہ عید بھی یہاں راستے میں گزاریں۔