کیا صحت یابی کے بعد بھی کورونا وائرس آپ کو نشانہ بنا سکتا ہے؟
کیا آپ کو صحت یاب ہونے کے بعد دوبارہ بھی کورونا وائرس نشانہ بنا سکتا ہے؟ کچھ مریض دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بیمار کیوں ہیں؟ کیا یہ مرض ہر سردی میں واپس آئے گا؟ کیا ویکسین کارگر ثابت ہو گی؟ کیا امیونٹی پاسپورٹ کی مدد سے ہم میں سے کچھ لوگ کام پر واپس جا سکتے ہیں؟ اس وائرس سے نمٹنے کے لیے کن طویل المدتی اقدامات کی ضرورت ہے؟
دنیا میں کووڈ-19 کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد جہاں روز بروز بڑھ رہی ہے وہیں یہ سوالات بھی تواتر سے پوچھے جانے لگے ہیں۔
ان تمام سوالات میں جو ایک چیز مشترک ہے وہ ہے امیون سسٹم یا مدافعتی نظام اور ہم اس بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔
آپ کورونا وائرس کے خلاف جسم میں مدافعت کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟
ہمارے جسم کا مدافعتی نظام انفیکشنز کے خلاف ڈھال ہے اور اس کے دو حصے ہیں۔
پہلا حصہ جسم میں کسی بیرونی حملہ آور کی شناخت کے ساتھ ہی کام شروع کر دیتا ہے۔ اسے ان نیٹ امیون ریسپانس کہا جاتا ہے جس میں خون کے سفید خلیے بیماری سے متاثرہ خلیوں کو تباہ کرتے ہیں اور ایسے کیمیائی مادے خارج ہوتے ہیں جس سے سوجن ہوتی ہے۔
لیکن یہ نظام کورونا وائرس پر اثر نہیں کر رہا۔ یہ اسے سمجھ نہیں رہا اور اس لیے آپ کے جسم میں اس کے خلاف مدافعت پیدا نہیں ہو رہی۔
اس کے برعکس آپ کو ایڈاپٹو امیون ریسپانس یا ضروت کے مطابق بدلنے والا مدافعتی ردعمل درکار ہے۔ اس میں ایسے خلیے ہوتے ہیں جو مخصوص اینٹی باڈیز بناتے ہیں جو وائرس سے چمٹ کر اسے روکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹی سیلز بھی ہوتے ہیں جو ایسے خلیوں کو نشانہ بناتے ہیں جو وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں اور اس عمل کو سیلیولر ریسپانس یا خلیوں کا ردعمل کہا جاتا ہے۔
اس کام میں وقت لگتا ہے۔ تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کو ہدف بنانے والی اینٹی باڈیز کی تیاری میں قریباً دس دن لگتے ہیں۔ یہی اینٹی باڈیز وائرس کا شکار افراد میں مضبوط مدافعتی نظام بنا سکتے ہیں۔
اگر ضروت کے مطابق بدلنے والا مدافعتی ردعمل کافی طاقتور ہو تو اس کا اثر وائرس پر دیرپا ہو سکتا ہے جو کہ مستقبل میں آپ کو اس سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
تاہم یہ واضح نہیں کہ جن لوگوں میں معمولی علامات پائی جائیں یا کوئی بھی علامت ظاہر نہ ہوئی ہو ان میں ضروت کے مطابق بدلنے والا مدافعتی ردعمل پیدا ہو سکتا ہے یا نہیں۔
وائرس کے خلاف مدافعت کب تک باقی رہتی ہے؟
مدافعتی نظام کی یادداشت بھی ہماری یادداشت جیسی ہی ہوتی ہے۔ یہ کچھ انفیکشنز کو واضح طور پر یاد رکھتا ہے تو کچھ کو بھول جاتا ہے۔
جیسے کہ خسرہ کا انفیکشن یاد رہنے والا ہے۔ ایک مرتبہ ویکسین لینے کے بعد تاحیات آپ کو یہ بیماری نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک خاص عمر کے لوگوں کو دوبارہ جدید ویکسین بھی لگوا لینی چاہیے۔
لیکن بہت سے انفیکشن ایسے ہیں جنھیں مدافعتی نظام یاد نہیں رکھ پاتا جیسے کہ بچوں میں سرد موسم میں بار بار سانس کی بیماری یا پھر فلو یا نزلہ زکام جس کا وائرس شکل بدلتا رہتا ہے۔
دنیا بھر کو متاثر کرنے والے نئے کورونا وائرس جسے کووڈ-19 یا سارس-کوو-2 کے نام دیے گئے ہیں، کو ابھی اتنا وقت نہیں ہوا کہ علم ہو سکے کہ اس کے خلاف مدافعت کتنے عرصے تک قائم رہ سکتی ہے تاہم انسان کو متاثر کرنے والے دیگر چھ کورونا وائرسوں سے اس بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ان میں سے چار کی وجہ سے عام نزلہ زکام کی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور ان کے خلاف مدافعت کا دورانیہ مختصر ہے اور تحقیق کے مطابق کچھ مریضوں کو تو سال میں دو بار اس وائرس نے متاثر کیا۔
لیکن عام نزلہ اتنا شدید نہیں ہوتا اس کے برعکس دو کوورنا وائرس زیادہ پریشان کن ہیں۔ یہ وہ وائرس ہیں جو سویئر ایکیوٹ ریسپیریٹری سنڈروم یعنی ’سارس‘ اور مڈل ایسٹ ریسپیرٹری سنڈروم یعنی ’میرس‘ کی وجہ بنتے ہیں۔ ان میں اینٹی باڈیز کی شناخت کئی برس بعد ہوئی ہے۔
یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا کے پروفیسر پال ہنٹر کا کہنا ہے کہ ’سوال یہ نہیں کہ آپ کے جسم میں مدافعت ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ اس کا دورانیہ کتنا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ بات یقینی ہے کہ یہ عرصہ عمر بھر کا نہیں ہے۔ سارس کی اینٹی باڈیز پر تحقیق سے علم ہوا تھا کہ مدافعت ایک سے دو برس کے لیے ہوتی ہے اور یہ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔‘
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر آپ مکمل طور پر وائرس سے نہیں بچ پائیں گے تو بھی دوسری مرتبہ اس کا اثر اتنا زیادہ نہیں ہو گا جتنا پہلی مرتبہ تھا۔
کیا لوگ دوبارہ کووڈ-19 کا شکار ہوئے ہیں؟
اس قسم کی اطلاعات ہیں کہ لوگ صحت یاب ہونے کے کچھ عرصہ بعد دوبارہ کورونا کا شکار ہوئے ہیں۔
جاپان میں کورونا کا ایک 70 سالہ مریض وہ شخص ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹروں کو اس سلسلے میں پریشان کن حقائق کا علم ہوا۔ ٹوکیو میں رواں برس فروری میں اس مریض میں کورونا کی تصدیق کے بعد اسے الگ تھلگ رکھا گیا تھا۔
جاپانی خبر رساں ادارے این ایچ کے کا کہنا ہے کہ یہ شخص صحت یاب ہونے کے بعد اپنی روزمرہ زندگی کی جانب لوٹ گیا لیکن چند دن بعد وہ پھر بیمار پڑ گیا اور اسے بخار ہو گیا۔ وہ واپس ہسپتال آیا اور اسے اور اس کے معالجین کو یہ جان کر دھچکا لگا کہ اس میں دوبارہ کورونا وائرس پایا گیا ہے۔
اس سلسلے میں ایک سوچ یہ ہے کہ مریض کو واقعی دوبارہ یہ وائرس لگا جبکہ ایک اور خیال یہ بھی ہے کہ وائرس جسم میں چھپ کر بیٹھ جاتا ہے اور کچھ عرصے بعد دوبارہ حملہ آور ہوتا ہے۔
تاہم سائنسی اجماع اسی بات پر ہے کہ یہ ٹیسٹنگ کی غلطی ہو سکتی ہے اور مریض کو غلطی سے بتایا گیا کہ وہ اب کورونا وائرس سے متاثر نہیں رہا۔
اب تک کسی بھی شخص میں مدافعت کے تجربے کے لیے جان بوجھ کر کورونا وائرس داخل نہیں کیا گیا ہے تاہم کچھ بندروں پر یہ تجربہ ضرور کیا جا چکا ہے۔
ان بندروں کے جسم میں دو مرتبہ وائرس داخل کیا گیا۔ ایک مرتبہ مدافعت کی تشکیل کے لیے اور پھر اس کے تین ہفتے بعد۔ ان محدود تجربات سے علم ہوا کہ بندروں میں دوبارہ وائرس داخل کیے جانے پر بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔
اگر میرے جسم میں اینٹی باڈیز ہیں تو کیا میں محفوظ ہوں؟
اس بات کی کوئی ضمانت نہیں اور اسی لیے عالمی ادارۂ صحت نے کہا ہے کہ حکومتیں کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کو ایسے سرٹیفیکیٹ جاری نہ کریں جن میں کہا گیا ہو کہ صحت یاب ہونے والے شخص کے جسم میں وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو چکی ہے۔
اس امیونٹی پاسپورٹ کے اجرا کا مقصد یہ ہے کہ تجزیے میں جن لوگوں کے جسم میں وائرس کے اینٹی باڈیز پائے جائیں گے وہ کام پر واپس آ سکتے ہیں۔ یہ ہسپتالوں اور کیئر ہومز میں کام کرنے والے عملے کے لیے اہم ہو سکتا ہے۔
لیکن جہاں آپ کو کچھ اینٹی باڈیز ہر مریض میں ملیں گی، یہ سب برابر نہیں ہوتیں۔ نیوٹرلائزنگ اینٹی باڈیز ہی وہ اینٹی باڈیز ہیں جو کورونا وائرس سے چمٹ جاتی ہیں اور اسے دوسرے خلیوں کو متاثر کرنے سے روکتی ہیں۔
چین میں کورونا سے صحت یاب ہونے والے 175 افراد پر کی گئی تحقیق کے مطابق ان میں سے 30 فیصد میں ایسی اینٹی باڈیز بہت کم تعداد میں پائی گئیں۔ اسی لیے عالمی ادارۂ صحت کہہ رہا ہے کہ ’خلیاتی مدافعت صحت یابی کے لیے انتہائی اہم ہے۔‘
ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ چاہے اینٹی باڈیز نے کورونا وائرس سے آپ کو محفوظ رکھا ہو، آپ پھر بھی یہ وائرس دوسرے افراد تک پھیلا تو سکتے ہیں۔
مدافعت کیوں ضروری ہے؟
یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا آپ کو کووڈ-19 بار بار اور کتنی مرتبہ متاثر کر سکتا ہے۔
آپ کا مدافعتی نظام وائرس کی ہلاکت خیزی پر بھی اثرانداز ہو سکتا ہے۔ اگر لوگوں میں کسی حد تک بھی اس سے بچاؤ کی صلاحیت پیدا ہو جائے تو یہ اس بیماری کو کم خطرناک بنا دے گی۔
اگر طویل المدتی مدافعت پیدا کرنا مشکل ہے تو اس کا نتیجہ ویکسین کی تیاری میں مشکلات کی صورت میں نکلے گا یا پھر اس سے ویکسین کے استعمال کے طریقے اور مدت پر بھی اثر پڑے گا۔
اور مدافعت کی مدت چاہے وہ انفیکشن کی وجہ سے ہو یا ویکسین کے استعمال سے، ہمیں بتائے گی کہ ہم اس وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں کتنے کامیاب ہو سکتے ہیں۔
یہ وہ بڑے سوال ہیں جن کے جواب فی الحال ہمارے پاس موجود نہیں ہیں۔
(بشکریہ بی بی سی)