زینب الرٹ بل سینیٹ سے منظور
سینیٹ نے زینب الرٹ بل کثرت رائے سے منظور کرلیا، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے بل کے خلاف ووٹ دیا۔ قانون کا اطلاق پورے ملک پر ہوگا، بل کے مطابق ایک نئی ایجنسی ’زارا‘ قائم کی جائے گی جو اغواء اور لاپتا بچوں کی بازیانی کے لیے کام کرے گی، پولیس دو گھنٹے کے اندربچے کے اغواء یا لاپتا ہونے کی ایف آئی آر درج کرے گی۔
ایف آئی آر اندراج میں تاخیریا رکاوٹ ڈالنے والے پولیس افسرکو 2 سال تک سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، ضلع کا سیشن جج خصوصی طور پرکیس مجسٹریٹ یا جج کے حوالے کرے گا جوکیس کو 3 ماہ میں نمٹائے گا۔
سینیٹ میں زینب الرٹ بل منظوری کیلئے پیش کیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر جاوید عباسی نے اس موقع پر کہا کہ ’زینب الرٹ بل بہت اچھا ہے، ہمارے پاس اس بل کے حوالے سے کچھ ترامیم ہیں، اس بل میں عمر قید کم سزا ہے، اگرثابت ہوکہ بچے کو ریپ یا قتل کیلئے اغوا کیا گیا تو اس کی سزا موت ہونی چاہیے۔
بل پر بحث کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ بل میں سزائے موت کی سیکشن شامل نہیں کی گئی، بل میں قصاص سے متعلق سیکشن کو شامل کیا جائے، قصاص کو دباؤ کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس موقع پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کہا کہ بل کے حوالے سے ترامیم آپ سینیٹ سیکرٹریٹ میں دیتے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق اور سینیٹر سراج الحق نے بل کی مخالفت کردی۔ سراج الحق نے کہا کہ گذشتہ چند ماہ میں 3 ہزار بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی، اس بل میں دفعہ 201 اور 302 کو شامل کیا جائے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے مزید کہا کہ قتل کی سزا تو پہلے ہی قصاص ہے، آپ نے بچوں کے قتل کی سزا کو صرف جیل تک محدود کردیا ہے۔
اس موقع پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ زینب الرٹ بل کو ابھی پاس کرلیں، ترامیم بعد میں شامل کردیں۔ حکمران جماعت تحریک انصاف کے سینیٹر شفقت محمود نے کہا کہ بہت سی باتیں کی جارہی ہیں جن میں وزن بھی ہے، بل پہلے قومی اسمبلی اور پھر سینیٹ کمیٹی میں زیر غور رہا، بل کو پاس کردیں، ترامیم بعد میں شامل کردیں۔ بعد ازاں سینیٹ نے زینب الرٹ بل کثرت رائے سے منظور کرلیا۔
اس موقع پر پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ کم عمر لڑکیوں کی شادی کا بل لے کر آئے، وہ ایجنڈے میں کیوں شامل نہیں کیا جارہا۔ شیری رحمان نے مزید کہا کہ آج نئے وزراء بھی ایوان میں موجود ہیں جو ہمارے لیے نئی بات ہے۔
خیال رہے کہ 22 فروری 2020 کو ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے زینب الرٹ بل ترامیم کے ساتھ منظور کیا تھا جس کے بعد اس قانون کا اطلاق ملک بھر میں ہو سکے گا۔
اس سے قبل قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے زینب الرٹ بل کا اطلاق صرف اسلام آباد میں ہونا تھا۔ بل کے مطابق وزیراعظم کی طرف سے گمشدہ اور لاپتہ بچوں کے حوالے سے ایک ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا جائے گا، ڈائریکٹر جنرل کے ساتھ افسران اور اہلکار بھی تعینات کیے جائیں گے۔
بل کے مطابق ڈائریکٹوریٹ جنرل زینب الرٹ، رسپانس و ریکوری بچوں کے حوالے سے مانیٹرنگ کا کام کرے گا اور ہیلپ لائن 1099 کے ساتھ مل کر کام کیا جائے گا۔