کابینہ نے صحافیوں کو تحفظ کے حوالے سےبل کا مسودہ کیوں روک لیا؟
وفاقی کابینہ نے وزارت انسانی حقوق کی جانب سے ’صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک جامع بل کے مسودے کی باضابطہ منظوری دینے سے روک دی۔
مذکورہ بل کا مقصد ’صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے آزادی اظہار، تحفظ، آزادی،غیر جانبداری کو فروغ اور موثر طور پر یقینی بنانا ہے‘۔
اس کے بجائے کابینہ نے اس بل کو وزارت اطلاعات کے تیار کردہ پہلے بل کے ساتھ یکجا کرنے اور ضروری تبدیلیوں اور ایک واحد بل کی شکل میں ڈھالنے کے لیے وزارت قانون بھجوانے کی کی ’اصولی‘ منظوری دی۔
ذرائع کے مطابق بل کا مسودہ دیکھنے والے سینئر ایڈیٹرز اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صحافیوں کے تحفظ اور حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے انتہائی تفصیلی قانون سازیوں میں سے ایک ہے۔
تاہم 2 بلز کو یکجا کرنے کے بعد وزارت قانون اسے حتمی شکل دے گی جس کی وجہ سے اس کے قانون بننے میں تاخیر ہوسکتی ہے
کابینہ سے منظوری کے بعد بل کا مسودہ پارلیمان بھجوایا جائے گا جہاں سے پاس ہونے کے بعد یہ صدر کی باضابطہ اجازت سے قانون بن جائے گا۔
اس ضمن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے تسلیم کیا کہ صحافیوں کو ہراساں کیے جانے، اغوا، دھمکیوں اور اذیتوں کے خلاف ضروری سیکیورٹی فراہم کرنے میں اب بھی وقت لگے گا
وزارت اطلاعات کے تیار کردہ مسودے میں زیادہ تر اسٹیک ہولڈرز اور وزارت داخلہ، خزانہ اور صحت کی آرا شامل ہیں جبکہ مسودہ وزارت انسانی حقوق نے تیار کیا جس میں بین الاقوامی قوانین اور اس سلسلے میں پاکستان نے جن کنوینشنز پر دستخط کیے ان کے حوالہ جات شامل ہیں۔
مذکورہ بل گزشتہ 2 دہائیوں میں درجنوں صحافیوں کے قتل، اغوا، تشدد کے سلسلے کے خلاف تیار کیا گیا جو ملک میں صحافیوں کے خلاف جرائم میں استثنٰی کی روایت کو ختم کرنے کی ایک کوشش ہے۔
صحافتی یونینز کا کہنا ہے کہ اس عرصے میں 70 صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کیا جاچکا ہے لیکن اب تک صرف 3 کیسز حل ہوئے باقی تمام کے مجرمان فرار ہیں۔
قتل کے ساتھ صحافیوں کو عوام تک معلومات پہنچانے کی ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں انجام دینے سے روکنے کے لیے تقریباً روزانہ دھمکیوں اور ڈرانے کے واقعات ہوتے ہیں۔
دوسری جانب وزرت اطلاعات کے تیار کردہ مسودے کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے حکومتی ذرائع نے بتایا کہ بل کے آغاز میں ہی کہا گیا ہے کہ ’حکومت آئین کی دفعہ 9 کے مطابق ہر صحافی اور میڈیا پروفیشنل کے حقِ زندگی اور شخصی سلامتی کو یقینی بنائے گی اور یہ کہ ایسے کسی شخص کو ناروا سلوک کا نشانہ نہیں بنایا جائے۔
دونوں بلز میں صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے لیے آزاد کمیشن تشکیل دینے کی تجویز دی گئی ہے، جس کے سربراہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج یا کوئی ایسا شخص ہوگا جو قانون، انصاف اور انسانی حقوق کے معاملات کی خاصی معلومات اور عملی تجربہ ہو۔
مجوزہ قانون ’جبری یا رضاکارانہ گمشدگی، اغوا، قید یا دباؤ کے دیگر طریقوں‘ کے خلاف تحفظ کو یقینی بنائے گا اور ملک میں تنازع کا شکار علاقوں میں کسی دھمکی، ہراسانی یا حملے کے خوف کے بغیر صحافیوں کو پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کی ضمانت دے گا۔
علاوہ ازیں وزارت انسانی حقوق اور اطلاعات و نشریات نے صحافیوں کی بہبود کے لیے اسکیم اور معاندانہ ماحول میں کام کرنے کے لیے ان کی سلامتی اور حفاظت یقینی بنانے کی خاطر صحافیوں کو صحت اور سیفٹی پروٹوکول کے ساتھ تربیت دینے کی تجویز دی گئی ہے۔