مسلم لیگ ق کی حکومت کو مطالبات ماننے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت
مسلم لیگ (ق) نے حکومتی وفد سے مذاکرات میں مطالبات پر عملدرآمد کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دے دی۔ متحدہ قومی موومنٹ اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے بعد مسلم لیگ (ق) نے بھی حکومت سے ناراضی کا اظہار کیا تھا اور وفاقی کابینہ کے اجلاس سے لیگی وزیر غائب تھے جس کا وزیراعظم نے نوٹس لیا تھا۔
حکومتی وفد نے اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس میں مسلم لیگ (ق) کے وفد سے ملاقات کی جس میں مل بیٹھ کر معاملات حل کرنے پراتفاق کیا گیا۔ حکومتی وفد نے ق لیگ کو مطالبات کے حل کے لیے تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔
مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں لیگی رہنما طارق بشیر چیمہ کا کہنا تھا کہ ہمارے مطالبات تسلیم کیے گئے ہیں، ہمارا اتحاد جاری رہے گا، مطالبات میں ترقیاتی عمل سب سے اہم مطالبہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مسائل اور تکالیف کے خاتمے سے متعلق بات ہوئی ہے، حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے مطالبات پورے ہوں گے۔
مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کی اندرونی کہانی بھی سامنے آگئی ہے۔ ذرائع کے مطابق ق لیگ نے مطالبات پر عمل درآمد کے لیے تحریک انصاف کو ایک ہفتے کی ڈیڈ لائن دی اور کہا کہ ایک ہفتے میں عمل درآمد نہ ہوا تو دھماکا ہوگا۔
ذرائع نے بتایا کہ ق لیگ نے حکومت کے سامنے 2 مطالبات رکھے کہ وزارتوں میں مکمل اختیار چاہیے، رکاوٹیں برداشت نہیں کریں گے اور ترقیاتی فنڈز کی فوری فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات میں چوہدری براداران کا پیغام بھی حکومت کو پہنچایا گیا کہ اب حکومت یہ ڈھنڈورا پیٹنا بند کرے کہ مونس الہیٰ کو وزارت چاہیئے، مونس کو کوئی وزارت نہیں چاہیے۔
خیال رہے کہ وفاقی حکومت میں شامل پاکستان مسلم لیگ (ق) کے قومی اسمبلی میں 5 ارکان ہیں اور وفاقی کابینہ میں ایک وزیر طارق بشیر چیمہ شامل ہیں۔ گزشتہ دنوں ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے وزارت سے استعفیٰ دیتے ہوئے وفاقی کابینہ چھوڑنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد سے ہی حکومتی رہنماؤں کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔
حکومت کی ایم کیو ایم کو منانے کی کوششیں جاری تھیں کہ ایک اور اتحادی جماعت گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس نے بھی اپنے مطالبات پورے نہ ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا جن سے منگل کو گورنر سندھ عمران اسماعیل نے ملاقات کی۔