لائف سٹائل

"بچپن میں سوچتی تھی معذور خواتین کچھ کرنے کے قابل نہیں”

 

 شاہ خالد شاہ جی

"جب میں ایک پاوں سے محروم ہوگئی تو پہلے سوچتی تھی کہ اب پوری زندگی دوسروں کے سہارے جینا ہوگی لیکن بعد میں اپنے آپ کو خود مختار بنانے کے لیے سلائی کڑھائی کا کام شروع کیا اور آج اخراجات میں بھی گھر والوں کا ہاتھ بٹھاتی ہوں” ۔

یہ کہنا تھا قبائلی ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ فرحبون بی بی کا جنہوں نے معذوری کے باوجود خود کو معاشرے پر بوجھ بننے کی بجائے کام شروع کیا اور آج ایک اچھی زندگی بسر کر رہی ہے۔

فرحبون جب پانچ سال کی تھی تو گھر کے قریب ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں ایک ٹانگ سے محروم ہوگئی تھی۔ قبائلی اضلاع میں بارودی سرنگ کے دھماکے عام ہے۔ فرحبون بھی لینڈ مائنز متاثرین میں سے ایک ہے۔ فرحبون نے بتایا” بارودی سرنگ کے دھماکے میں ایک ٹانگ سے محروم ہونے کی وجہ سے تعلیم بھی ادھوری رہ گئی اور بچپن سے دوسروں کے سہارے رہنے پر مجبور ہوگئی تھی”۔

تاہم بعد میں فرحبون کے مطابق جب وہ بڑی ہوگئی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ مزید دوسروں کے سہارے جینا نہیں چاہتی، اور اسی وجہ سے فرحبون کے مطابق انہوں نے کپڑے سلائی کا کام شروع کیا اور ان کی زندگی کا یہ سفر تب شروع ہوگیا جب ان کو ایک غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے ایک سلائی مشین عطیہ کیا گیا۔

فرحبون نے بتایا کہ ابتدا میں مشکلات زیادہ تھی لیکن اب اتنا کماتی ہوں کہ اس میں بھائیوں اور بہنوں کا خرچہ بھی اٹھاتی ہوں اور گھر کے اخراجات بھی برداشت کرتی ہوں۔ فرحبون کے والد ڈرائیور ہے اور فرحبون کے مطابق صرف گاڑی چلانے کرنے سے آج کل کے زمانے میں پورے گھر کا خرچہ برداشت کرنا ممکن نہیں ہے۔

فرحبون بی بی کہتی ہیں "ہمارےگاؤں کے لوگ زیادہ تر متوسط طبقے سےتعلق رکھتے ہے، اسلئے یہاں پر خواتین زیادہ ترسادہ کپڑے ان سے بنواتے ہیں لیکن وہ خواتین کی فرمائش کے مطابق بھی انکے لئےکپڑے بناتی ہے جبکہ وہ خود مختلف ڈیزائن کے کپڑے بھی بناسکتی ہےاور پیکو اورکپڑوں پرگلکاری بھی کرسکتی ہے لیکن انکے پاس سادہ سلائی مشین ہے اور پیکو اورگلکاری کرنے کامشین نہیں ہے”۔

انہوں نے بتایا کہ پیکو اور گلکاری کےلئے وہ کپڑےخار بازاربھیجتی ہے اور اس سارے کام میں ان کے والد تعاون فراہم کر رہے ہیں۔ فرحبون نے بتایا "آج تک جب بھی والد کو کپڑے پیکو کرنے کے لیے بازار لے جانے کا بتایا ہے تو کبھی بھی انکار نہیں کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں اپنے سہارے جینا چاہتی ہوں لیکن والد کے بغیر یہ کام ممکن نہیں ہے "۔

فرحبون نے کہا کہ اگر انکو پیکو اورگلکاری کی مشینیں فراہم کیجائے تو اس سے نہ صرف انکا کاروبار اچھا ہوگا بلکہ گاؤں کی دوسری لڑکیوں کو بھی روزگارکے مواقع ملیں گے۔

فرحبون بی بی کے والدباچہ الرحمن نے بتایا کہ جب ان کی بیٹی اچانک بارودی سرنگ کا حادثہ کا شکار ہوئی تو وہ دن ان کی زندگی کے لئے انتہائی پریشان کن دن تھا کیونکہ معذوری کوہمارے معاشرےمیں ایک بوجھ سمجھاجاتا ہے لیکن فرحبون بی بی نے اپنی محنت سے ثابت کیا کہ وہ بوجھ نہیں بلکہ خاندان کی طاقت ہے۔

انہوں نے بتایا "اپنے بیٹوں اورفرحبون بی بی میں کبھی فرق نہیں کیا بلکہ انکو مکمل سپورٹ کیا اور انکو یہ احساس نہیں دلایاکہ وہ معذورہے اور اب اللہ کا فضل ہے کہ فرحبون بی بی گھر کی تمام خواتین اور بچوں کے کپڑےخود سیتی ہیں جس سے ہمیں کافی بچت ہوتی ہے اوراسکے ساتھ ضرورت کے وقت ہمیں پیسے بھی دیتی ہے”۔

باچہ الرحمن نےکہا اجل کل ایساوقت آیا ہےکہ کوئی سگہ بھائی بھی بہن کی مددنہیں کرتا اسلئے وہ اس بات پرخوش ہے کہ انکی بیٹی اپنے اخراجات خودبرداشت کرتی ہے۔

تنظیم بحالی معذوران باجوڑ 2008 سے معذور افراد کے حقوق کے لیے کام رہا ہے اور معذور افراد کا ڈیٹا بھی اکھٹا کرتا ہے۔ اس تنظیم کے اعدادوشمار کے مطابق ان کے پاس آٹھ ہزار معذور افراد رجسٹرڈ ہے جس میں مردوں کا تناسب 63 فیصد جبکہ خواتین 37فیصد ہے۔

تنظیم کے سربراہ حضرت علی شاہ نے بتایا کہ ان کے پاس رجسٹریشن کے لیے معذور افراد اس لیے آتے ہے تاکہ ان کی مدد کی جا سکے جس میں بعض کو معمولی نوعیت کی معذوری بھی ہوتی ہے تاہم پاکستان میں معذور افراد کا باقاعدہ ڈیٹا مرتب نہیں کیا جاتا۔

حضرت ولی نے بتایا ،’ ڈیٹا نہ ہونے کی وجہ سے ان کے حقوق کا باقاعدہ خیال بھی نہیں رکھا جاتا اورنہ ان کے لیے سہولیات فراہم کی جاتی ہے۔ ہمارے ساتھ  باجوڑ کے کچھ علاقوں کے معذور افراد تو رجسٹرڈ ہے لیکن دور دراز علاقوں میں اب بھی ایسے لوگ ہے جس کی رجسٹریشن ہمارے ساتھ نہیں ہوئی ہے۔‘

ولی شاہ کے مطابق اپنی تنظیم کے پلیٹ فارم سے انہوں نے اب تک 59 سلائی مشین معذورخواتین میں تقسیم کی ہے تاکہ وہ اسکے زریعےاپنے لئے باعزت روزی کماسکے۔ معذورخواتین کے کاروبار شروع کرنے کےحوالے سے حضرت علی نے بتایا کہ یہ خواتین اپنی مدد آپ کے تحت یا کسی غیر سرکاری تنظیم کی مدد سے کاروبار تو کر رہے ہیں لیکن حکومتی سطح پر کچھ خاطر خواہ اقدمات نہیں کیے گئے۔

انہوں نے بتایا ” ہماے معاشرے میں معذور افراد کو ویسے بھی بوجھ سمجھا جاتا ہے لیکن جب خاتون ہو اور پھر معذور بھی تو ان کے مسائل دوگنے ہو جاتے ہیں  "۔

محکمہ سوشل ویلفیئرباجوڑ کےسینئر اہلکار فضل آمین نے بتایا کہ انکے ساتھ 9200 کے لگ بھگ رجسٹرڈ معذور افراد ہےجسکا سپیشل کارڈ یا فارم ب بنا ہوا ہے۔ ان رجسٹرڈ افراد میں مختلف عمرکے مرد وخواتین شامل ہے لیکن انہوں نے ابھی تک اسمیں خواتین اورمردوں کی الگ درجہ بندی نہیں کی ہے۔

فضل نے بتایا کہ ہم نے باجوڑ کے تحصیل خار میں معذور خواتین کے لئے سکل سنٹر بھی قائم کیا ہے۔ اس کے علاوہ  فوڈز پراسسنگ سنٹر پر کام ہورہا ہے جس میں دیگر خواتین کے ساتھ ساتھ  سپیشل خواتین کو بھی مختلف قسم کے کیچپ بنانے کے طریقے سکھائیں جائینگے۔ جبکہ قبائلی اضلاع کی ترقی کے دس سالہ پلان میں باجوڑ کے معذور افراد اور خاص طور پرخواتین کے لئے مختلف کاروبارشروع کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی گئی ہے جس سے انکی زندگی میں نمایاں تبدیلی آئے گی۔

فرحوبون بی بی نے بتایا کہ اگر ان کو حکومت کی طرف سے سپورٹ حاصل ہوگیا تو انکو یقین ہے کہ انکے علاقے میں کوئی بھی معذور خاتون دوسروں کے سہارے نہیں جیے گی بلکہ وہ ایک خود مختار خاتون کی طرح زندگی بسر کریں گی۔ انھوں نے بتایا  ” میری تمام والدین سے بھی یہ التجا ہے کہ اپنے معذور بچوں کو بوجھ نہ سمجھیں بلکہ ان کے ساتھ ایک نارمل فردکی طرح سلوک کریں اور ان کو جتنا ہو سکے تعلیم دلائیں تاکہ وہ مستقبل میں معاشرے کا ایک فعال رکن بن کر زندگی بسر کر سکے” ۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button