ہماری پیدائش میں ہمارا اپنا کیا قصور ہے؟
عابد جان ترناو
"جب کوئی حقارت سے ہیجڑا کہتا ہے تو بہت درد ہوتا ہے. ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی پیدا کیا ہے، ہماری پیدائش میں ہمارا اپنا کیا قصور ہے؟ لوگوں کی نظریں، ان کی باتیں دل چیر کر رکھ دیتی ہیں۔” یہ الفاظ تھے خواجہ سرا کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی روبی خان کے۔ روبی خان کا تعلق ضلع مردان سے ہے، وہ صحیح بخاری جیسی حدیث کی معتبر کتاب کے مصنف امام بخاری کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں روبی کا کہنا تھا "میری پیدائش پر گھر میں بہت خوشیاں منائی گئی۔ میرے والد نے میری پیدائش کی خوشی میں ہوائی فائرنگ بھی کی اور اہالیانِ محلہ کی دعوت بھی کی۔ میرے بہن بھائی مجھ سے بہت پیار کرتے تھے اور مجھ پر جان چھڑکتے۔ لیکن جیسے جیسے میں بڑی ہوتی گئی، میرے عادات و اطوار زنانہ ہوتے گئے۔ شروع میں گھر والوں کو یہ عادات و اطوار عجیب لگنے لگے پھر انہیں پتا چلا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے زنانہ خصوصیات کے ساتھ پیدا کیا ہے یعنی خواجہ سرا پیدا کیا ہے۔ ”
روبی جس خاندان سے تعلق رکھتی تھی، اس خاندان میں ایسے انسان کا پیدا ہونا نہایت ہی تکلیف دہ تھا۔ وہ اس بات کو قبول ہی نہیں کرسکتے تھے کہ ان کے گھر کا کوئی فرد خواجہ سرا ہو۔ مقامی معاشرے میں انہیں ہیجڑا کہا جاتا تھا جو شادیوں میں ناچتا گاتا تھا۔ خواجہ سراؤں کو ہمارے معاشرے میں اچھوت سے بدتر درجہ دیا جاتا ہے۔ انہیں دل بہلانے کے لئے مختلف تقریبات میں ناچ گانے کے لئے بلایا تو جاتا ہے لیکن انہیں ایک باعزت شہری کا درجہ دینے کو کوئی بھی تیار نہیں ہوتا۔
پھر بھی روبی کے گھر والوں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی، اسے ایف ایس سی تک تعلیم دلوائی اور اسے نارمل زندگی کی طرف لانے کے لئے وہ سب کچھ کیا جو وہ کرسکتے تھے۔ لیکن روبی کا مسئلہ فطری تھا نہ کہ مصنوعی۔ اس کے گھر والے اپنی پوری کوشش کے باوجود اس کا زنانہ پن ختم نہ کرسکے۔ روبی کے والد، جو علاقے کے معززین میں شمار ہوتے تھے، نے اپنے اس بیٹے/بیٹی کے لئے خاندان کی ناراضگی تک مول لے لی۔ تمام خاندان نے ان کا ایک قسم کا سوشل بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ کوئی بھی اپنے بچوں اور خواتین کو ان کے گھر نہیں بھیجتا مبادا کہیں ان پر بھی غلط اثر نہ پڑ جائے۔
"میرے والد ڈٹے ہوئے تھے لیکن آخر کار میری ہمت جواب دے گئی۔ میں لوگوں کی طنزیہ نظریں، حقارتی جملے سن سن کر تھک گئی تھی۔ بالآخر ایک رات میں گھر چھوڑ کر نکل آئی۔” ایک سوال ،کہ جب وہ گھر چھوڑ آئی تو شروع میں کیا مشکلات پیش آئی، کے جواب میں روبی نے بتایا "شروع میں میں ایک خوفزدہ ہرنی کی طرح بولائی بولائی پھر رہی تھی۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا ہر طرف بھیڑئیے ہیں جو اپنے نوکیلے دانت نکوسے میری طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایک سال تک میں کسی کٹی پتنگ کی طرح ادھر ادھر ڈولتی رہی۔ پھر بالآخر مجھے ٹھکانہ مل گیا اور میں چارسدہ میں خواجہ سراؤں کے ڈھیرے پہنچ گئی۔ یہاں مجھے سر چھپانے کو ٹھکانہ بھی مل گیا اور کھانے کو روٹی بھی مل گئی”
روبی کے مطابق خواجہ سراؤں کے ڈھیرے پر گزارے گئے ابتدائی سال نہایت خوفناک تھے۔ یہاں پر رہ کر انہیں انسانوں کے اک اور روپ کا ادراک ہوگیا۔ اور یہ روپ شیطان سے بھی زیادہ کریہہ تھا۔
"دن کو نظر آنے والے شرفاء و معززین رات ہوتے ہی ابلیس کا روپ دھار لیتے۔ یہاں پر قوم لوط کے پجاری اپنی اصلی شکل میں آجاتے اور ساری رات یہ رقص ابلیس جاری رہتی۔ وہ ساری رات ان معصوم و مجبور خواجہ سراؤں کو بھنبھوڑتے رہتے۔صبح ہوتے ہی یہ لوگ اپنا لٹا پٹا وجود لے کر واپس آجاتے اور اگلی رات کے لئے کسی نئے شکاری کے لئے خود کو تیار کرتے”۔
روبی پچھلے دس سال سے خواجہ سراؤں کے اس ڈھیرے پر موجود ہے۔ اسے اپنے گھر والے بے حد یاد آتے ہیں۔ کبھی کبھار ان سے فون پر بات ہوتی ہے لیکن وہ وہاں جا نہیں سکتی۔
اس دوران روبی نے خود کو مصروف رکھنے کے لئے کچھ دیگر مشاغل بھی ڈھونڈ رکھے ہیں۔ آج کل وہ جذبہ نامی تنظیم کے ساتھ بطور فوکل پرسن خواجہ سرا کمیونٹی کے کام کر رہی ہے۔ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے وہ خواجہ سراؤں کے مسائل پوری دنیا تک پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے علاؤہ ان کی اپنی ایک تنظیم بھی ہے جس کا نام ہے منزل فاؤنڈیشن۔ اس بارے میں روبی کا کہنا ہے” ہماری یہ تنظیم خالصتاً خواجہ سرا کمیونٹی کے لئے ہے۔ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے ہم نے اپنی کمیونٹی کے لئے کئی اہم کام کئے ہیں۔ شروع میں جب کسی خواجہ سرا کو مار دیا جاتا، تو تھانے میں اس کی ایف آئی آر درج کرنے میں شدید مشکلات پیش آتی۔ اسی طرح ہسپتال میں داخلے کے وقت ہمیں بے حد دشواریوں کا سامنا ہوتا۔ اب اس تنظیم کی کاوشوں کی بدولت تھوڑی بہت آسانیاں ہوگئی ہیں۔ اب ہماری کوشش ہے ہمارے لئے علیحدہ تعلیمی ادارے بن جائیں جہاں ہمیں کسی کی حقارت بھری نظروں کا سامنا نہ کرنا پڑے”۔
ایک سوال کے جواب میں کہ وہ اپنے ہم وطنوں کو کیا پیغام دینا چاہتی ہیں ، روبی نے کہا” ہم بس اتنا چاہتے ہیں کہ ہمیں انسان سمجھا جائے اور بطور انسان ہمارے جو حقوق ہیں، ہمارے ساتھ ان کے مطابق سلوک کیا جائے۔ آج کل خواجہ سراؤں کی ٹارگٹ کلنگ بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ براہ کرم ہمیں مت ماریں۔ ہم بھی اس معاشرے کے شہری ہیں۔ ہمیں جینے دیں”۔