لائف سٹائل

پاپا سگریٹ اورنسوار چھوڑ دیں کچھ سٹینڈرڈ والی چیز استعمال کریں

نسرین جبین
میرے 14 سالہ بیٹے نے اپنے والد سے کہا کہ پاپا یہ پرانی سٹائل کی سگریٹ اور نسوار چھوڑ دیں ای سگریٹ اور ویلو استعمال کریں۔ ویلو میں بہت سارے ٹیسٹ (ذائقے )ہیں اور سٹینڈرڈ بھی لگتا ہے اور اچھا دکھتا ہے اس لیے اب نسوار منہ میں نہ رکھا کریں اس کو چھوڑ دیں۔ میں اس کا منہ دیکھ رہی تھی، میں جس نے بیسویں اور 21 اکیسویں صدی کو پلٹتے دیکھا جس کے زمانے میں والدین کے سامنے بچے ادب احترام اور حیا سے آنکھیں نیچے جھکائے ہوئے بات کرتے کہ کہیں منہ سے کچھ غلط نا نکل جائے اور کسی بھی قسم کے نشے کی ڈسکشن کرنا تو درکنار اس کا ذکر کرنے بھی اجازت نہیں ہوتی تھی اور آج اپنے بچے کو اس طرح کی باتیں کرتے سن کر میں ششدر رہ گئی کہ ہماری نسلیں کس طرف جا رہی ہیں۔

یہ کہنا تھا پشاور کی رہائشی خاتون نسرین اشفاق کا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جہاں ٹیکنالوجی نے اور گلوبلائزیشن نے ہمیں بہت ساری ترقیاں دیں وہاں کچھ تبدیلیاں ایسی بھی آئی ہیں کہ جو ہماری نسلوں کو بہت کم عمری میں ہی گمراہی اور تباہی کی طرف لے جا رہی ہیں۔ انہیں میں سے ایک جدید طرز کی منشیات بھی ہے جو کہ بہت کم عمری سے بچوں میں مقبول ہوتی چلی جا رہی ہے جو کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔ یہ نئی نشہ آور چیزیں اب ہائیر سکینڈری سکولوں،کالجوں یا یونیورسٹیوں کہ طلباء اور طلباء کے ساتھ ساتھ اب پرائمری اور مڈل سکول کے کم عمر بچوں کی صحت، زندگی، مستقبل کو داوٗ پر لگا رہی ہے۔

پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ یہ ہے کیا اس کے کیا نقصانات ہیں اورکیسے اس سے بچا جائے۔ ان اشیا کو الیکڑانک سگریٹ یا ای سگریٹ۔کوکو ویبس، ای بکس،ویب پینس، ٹینک سسٹم، موڈز اور الیکڑانک نکوٹین ڈیلیوری کہا جاتا ہے جو کہ اکثر لکھنے والے پینوں کی شکل میں بنائے جاتے ہیں تاکہ نوجوانوں یا طلبا کے ہاتھوں میں پہچانے نا جاسکیں۔ موجودہ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 55 ملین افراد ویپ کا استعمال کر رہے ہیں اور اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ 2023 کے اختتام تک الیکٹرانک سگریٹ کی انڈسٹری 40 بلین ڈالر تک جا پہنچے گی۔ اگرچہ پاکستان میں ای سگریٹ اور ویپ کا استعمال کرنے کے حوالے سے کوئی حتمی اعداد و شمار موجود نہیں۔ سول سوسائٹی تنظیموں کے رہنماؤں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ عالمی ادارے صحت کے بیان کے بعد پڑوسی ممالک کے طرز پر ماہرین صحت کے ای سگریٹ اور ویب سے متعلقہ کسی بھی ریسرچ پر شمولیت اختیار کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔ حتی کہ اس کی منظوری مرکزی وزارت صحت یا صوبائی ادارہ صحت کی جانب سے حاصل نہ کی گئی ہو اور یہ یقینی بنایا جائے کہ ایسی کوئی بھی ریسرچ تمباکو کی صنعت یا اس سے جڑے ہوئے اداروں کی جانب سے نا کی جا رہی ہو۔

سماجی تنظیم بلیو وینز کے پروگرام مینجر قمر نسیم نے کہا کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں شہریوں کی صحت اور ان کے بہترین مفاد کی خاطر ویب پر فوری پابندی عائد کریں اور اس حوالے سے قانون سازی ترتیب دی جائے۔ صوبائی ڈاکٹر ایسوسی ایشن کے چیئرمین قاضی شہباز جو تمباکو کے منفی اثرات کی روک تھام کے حوالے سے سرگرم ہے کا کہنا ہے کہ نئی نسل کو تمباکو اور نکوٹین سے بچانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان میں نکوٹین کی نئی اشیاء جیسا کہ ویپ اور نکوٹین پاؤچ کی بلا روک ٹوک خرید و فروخت ماہرین صحت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

پشاور کے معروف ماہر امراض سینہ ڈاکٹر احتشام نے کہا کہ معاشرے میں اس تصور کو تیزی سے فروغ دیا جا رہا ہے۔ ویپ کا استعمال سگریٹ نوشی ترک کرنے کے حوالے سے مددگار ہے جبکہ اس حوالے سے کوئی مستند ثبوت یار ریسرچ موجود نہیں۔ چونکہ الیکٹرانک سگریٹ اور ویب میں نکوٹین کا استعمال کیا جاتا ہے لوگ بہت جلد اس کے عادی بن جاتے ہیں اور اس کے استعمال کی وجہ سے سانس اور سینہ کے امراض میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ آلٹرنیٹیو ریسرچ انیشیٹیو (اے آر آئی) کے مطابق پاکستان میں تقریباً تین کروڑ دس لاکھ تمباکونوش ہیں۔ پاکستان میں تمباکو نوشی کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں اور اموات پر سال 2019 میں 3.85 ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ امریکہ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ کے مطابق پاکستان میں 23.9 ملین افراد سگریٹ نوشی کی لت میں مبتلا ہیں جبکہ 6.2 فیصد افراد ویپ کا استعمال کر رہے ہیں۔ تمباکو کے منفی اثرات کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے سماجی تنظیموں کے اتحاد کی جانب سے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ملک بھر میں ویپ اور ای سگریٹ کی فروخت پر فوری طور پر پابندی عائد کر دی جائے۔ تمباکو کی طرز پر اس کی تیاری اور خرید و فروخت پر کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ویپ اور الیکٹرانک سگریٹ کی خرید و فروخت کے حوالے سے کوئی وفاقی یا صوبائی پالیسی یا قانون موجود نہیں جس پر سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ ویپ اور الیکٹرانک سگریٹ کی دیگر تمام قسمیں دکانوں پر نوجوانوں حتی کہ 18 سال سے کم عمر بچوں کو بلا روک ٹوک فروخت کی جا رہی ہے۔ اور ان کو ایسی شکلوں اور ذائقوں میں تیار کیا جا رہا ہے جو کہ نوجوانوں میں مقبول ہیں اور اس کے ڈیزائن بچوں کو اپنی جانب راغب کرتے ہیں۔

اگر دنیا کے دوسرے ممالک پرنظر ڈالی جائے تو سعودی عرب میں مشرقی دمام میونسپلٹی نے مملکت کی سپرمارکیٹوں اور جنرل سٹورز کو سگریٹ کی فروخت کے تمام تقاضے پورے کرنے پر زور دیا ہے۔ دمام میونسپلٹی نے ایکس اکاؤنٹ پر کہا کہ جنرل سٹورز اور سپرمارکیٹس تمباکومصنوعات کی فروخت میں ضوابط کا خاص خیال رکھیں۔ ضوابط میں کہا گیا ہے کہ 18 سال سے کم عمر کو سگریٹ و تمباکو مصنوعات فروخت نے کی جائیں۔ سپرمارکیٹ اور جنرل سٹور میں تمباکو اور سگریٹ کی تشہیر ممنوع ہے۔ سگریٹ اور تمباکو مصنوعات جنرل سٹورز اور سپر مارکیٹوں میں اندرونی خانوں میں رکھی جائیں۔ سگریٹ جس جگہ فروخت کی جارہی ہو وہاں تمباکو نوشی سے صحت کو ہونے والے نقصانات سے آگہی کے سٹیکر نمایاں جگہ چسپاں کیے جائیں۔ تمباکو اور اس سے تیارکردہ اشیا اور اس حوالے سے دیگر لوازمات کی فروخت و تشہیرمنع ہے۔ 100 مربع میٹر سے کم رقبے کے جنرل سٹور میں سگریٹ کی فروخت بھی منع ہے۔ اگر کسی شخص کی نظر میں اس حوالے سے خلاف ورزی سامنے آئے تووہ ایپ پر خلاف ورزی سے متعلق اطلاع دے سکتا ہے۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button