لائف سٹائل

چمن بارڈر پر 47 دنوں سے دھرنا جاری مگر کیوں؟

 

حضرت علی عطار
پاک افغان بارڈر، چمن، پر گزشتہ 47 دنوں سے ایک احتجاجی دھرنا جاری ہے جس میں شریک ہزاروں افراد کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ چمن بارڈر پر پرانا سسٹم برقرار رکھا جائے۔

پرانا سسٹم کیا تھا؟
پرانا سسٹم قلعہ عبداللہ کے قومی شناختی کارڈ اور قندہار کے تزکِرہ پر بارڈر پار کرنے کی اجازت تھی۔ 2021 میں جب چمن ایک الگ ضلع بنا تواس کے بعد صرف چمن کے شناختی کارڈ اور قندہار کے تزِکرہ پر بارڈر پار کرنے کی اجازت تھی جبکہ بارڈر منیجمنٹ نے بلوچستان کے دیگر اضلاع کے افراد کے لیے پاسپورٹ لازمی قرار دیا تھا۔
چمن بارڈر پر پاسپورٹ کی شرط کب لاگو ہوئی؟
8 اکتوبر کو بلوچستان کے نگران وزیر اعلی میر علی مردان ڈومکی ایک روزہ دورے پر چمن آئے۔ ایف سی قلعہ میں ایک قبائلی جرگہ منعقد ہوا۔ اپنے خطاب میں میر علی مردان ڈومکی نے کہا کہ اپیکس کمیٹی کا فیصلہ ہے کہ یکم نومبر سے چمن بارڈر پر پاسپورٹ سسٹم رائج کیا جائے گا۔ اس فیصلے کی جرگہ مشران نے مخالفت کی اور اس پر نظرثانی کا مطالبہ کیا۔ وزیر اعلی نے قبائلی مشران سے کہا کہ یہ فیصلہ حتمی ہے تاہم آپ کے جو تحفظات ہیں وہ ضرور حکام بالا تک پہنچائیں گے۔ اِس کے بعد پورا شہر سراپا احتجاج بنا اور مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے۔

چمن شہر کی ٹوٹل آبادی اور لوگوں کا زریعہ معاش
حالیہ مردم شماری کے مطابق چمن شہر کی ٹوٹل آبادی 436000 نفوس پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً ایک لاکھ سے زائد افغان مہاجرین یہاں رہتے ہیں۔ یہاں کے 70 فیصد لوگوں کا زریعہ معاش بارڈر سے وابستہ ہے۔ یہاں پر نہ کوئی زراعت ہے نہ روزگار کے دیگر مواقع! یہی وجہ ہے کہ چمن کے عوام، تاجروں اور سیاسی پارٹیوں نے اِس فیصلے کو یکسر مسترد کر دیا اور گزشتہ 40 دنوں سے ہزاروں افراد اپنے کام کاج چھوڑ کر احتجاجی دھرنا دیئے ہوئے ہیں جس میں دس سے پندرہ ہزار افرد روزانہ کی بنیاد پر شریک ہوتے ہیں۔
سب ہیڈنگ: احتجاجی دھرنا کب شروع ہوا اور اس میں کون کون سی پارٹیاں شامل ہیں؟
احتجاجی دھرنا 20 اکتوبر بروز جمعہ شروع ہوا جس میں عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام، بلوچستان عوامی پارٹی، پشتونخواملی عوامی پارٹی، جماعت اسلامی، پشتون تحفظ موومنٹ، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ، اہل سنت والجماعت، لغڑی اتحاد، انجمن تاجران و دوکاندارن، آل پاکستان تحریک، ویش زوانان اور سول سوسائٹی کارکنان کے ساتھ ساتھ چمن کے مقامی افرادشامل ہیں۔

پاسپورٹ سسٹم کی مخالفت کیوں؟
دھرنا کمیٹی کے ترجمان صادق اچکزئی نے ٹرائبل نیوز نیٹ ورک کو بتایا کہ چمن بارڈر پر پاسپورٹ سسٹم ہمیں کسی صورت قبول نہیں کیونکہ چمن کے 70 فیصد لوگوں کا زریعہ معاش بارڈر سے وابستہ ہے۔ دوسری جانب اِس بارڈر پر برادر قبائل رہتے ہیں جن کی زمینیں اور جائیدادیں سرحد کی دونوں جانب واقع ہیں۔ جو خاردار تار سرحد پر لگائ گئی اُس کی وجہ سے سرحد کے نزدیک دیہات اور گھرانے دو حصوں میں تقسیم ہوئے۔ صدیوں سے ایک سسٹم چلا آ رہا ہے کہ ضلع چمن اور سپین بولدک کے تزکرے پر بارڈر پار آنے جانے کی اجازت تھی۔ آخر وہ کون سی بلا آئی کہ حکومت اس بارڈر پر پاسپورٹ کی شرط لاگو کرنے جا رہی ہے۔

لغڑی اتحاد کے جنرل سیکرٹری امیر محمد نے ٹرائبل نیوز نیٹ ورک کو بتایا کہ ریاست پاکستان نے ان 76 سالوں میں ہمیں کیا دیا؟ دوسری جانب جو روزگار اللہ تعالی کی طرف سے ہمیں دیا گیا ہے وہ ہم سے چھیننے کی کوشش ہو رہی ہے: "ہم قبائل ہیں۔ سرحد کے اُس پار ہمارے اپنے عزیز واقاریب ہیں۔ ہمارے قبرستان وہاں افغانستان سائڈ پر ہیں۔ ہماری 100 ایکڑ زمین افغانستان سائڈ پر رہ گئی۔ ہم نے احتجاج کیا اور اپنی زمینوں تک رسائی کا مطالبہ کیا۔ ہمارے مطالبات منظور ہوئے اور ہمیں گیٹس دیئے گئے۔ اب اِن گیٹس پر تعینات سیکورٹی فورسز والے یہ کہتے ہیں کہ اگر گیٹس پر کوئی واقعہ پیش آیا تو اس کے ذمہ دار گاؤں والے ہوں گے۔ اِن گیٹس پر ایک بار بھی ہم اپنی زمینوں تک نہیں گئے۔ ہمیں سبز باغ دکھایا گیا۔ ہمارا ون پوائنٹ ایجنڈا ہے کہ چمن بارڈر پر پاسپورٹ کی شرط ہمیں کسی صورت قبول نہیں ہے۔ اِس دھرنے سے یا تو ہماری لاشیں اٹھائی جائیں گی یا ہمارا مطالبہ تسلیم کرنا ہو گا۔

چمن چیمبر اف کامرس کے سنیئر نائب صدر اولس یار خان نے بتایا کہ پاسپورٹ کی شرط لاگو ہونے سے پاک افغان تجارت کو سخت مشکلات درپیش ہوں گی۔ روزانہ کی بنیاد پر 25 سے 30 ہزار کے قریب مقامی تاجر باب دوستی سے ہوتے ہوئے بارڈر پار جاتے ہیں، اگر پاسپورٹ کی شرط پر نظرثانی نہ کی گئی تو پھر یہ لوگ نہ وقت پر اپنی مارکیٹوں تک جا سکتے ہیں نہ ڈرائیور وقت پر اپنے ٹرکوں تک پہنچ پائیں گے۔ جو مزدور طبقہ ہے وہ بھی اسی طرح متاثر ہو گا۔ روزانہ 25 سے 30 ہزار لوگوں کے پاسپورٹ پر ویزے لگانا، داخل یا خروج کے ٹپے لگنا ایک پیچیدہ عمل ہو گا۔ چمن بارڈر یہاں کی آبادی کے لیے معاشی آکسیجن یا شہ رگ ہے لیکن بدقسمتی سے حکومت اسے کاٹ رہی ہے۔ پاسپورٹ کی شرط لگنے سے ہزاروں افراد بے روزگار ہوئے، کیا حکومت کے پاس متبادل روزگار کا کوئی آپشن ہے؟ دوسری جانب نگران حکومت نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں کئی آئٹمز پر پابندی عائد کر دی جس کے باعث تاجروں کو نقصانات کا سامنا ہے۔ کیا نگران حکومت اس طرح کے فیصلے کر سکتی ہے؟

25 اکتوبر کو نگران صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی چمن آئے اور دھرنے کے منتظمین سے دو بار مذاکرات کئے۔ دھرنا کمیٹی کے دو مطالبات تھے: چمن بارڈر پر پاسپورٹ کی شرط ختم کی جائے اور لغڑی پیکج بحال کیا جائے۔ تاہم مذاکرات بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہوئے۔ اِس موقع پر جان اچکزئی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی کا روزگار نہیں چھینیں گے، چمن شہریوں کا روزگار ریاست کی ذمہ داری ہے، ہم ہر صورت انہیں روزگار دیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں جان اچکزئی نے بتایا کہ بارڈر پاسپورٹ سسٹم رائج کرنا ایپکس کمیٹی کا فیصلہ ہے اور یہ فیصلہ حتمی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ رواں سال 20 خودکش حملے ہوئے جن میں 14 حملہ آوروں کا تعلق افغانستان سے تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ 700 کریمینل کیسز میں بھی افغان مہاجرین ملوث ہیں۔ اِس بارڈر کو ہر صورت ریگولیٹ ہونا ہے، یہ ایک انٹرنیشنل بارڈر ہے۔

دھرنا کمیٹی کے 26 اکتوبر کو کور کمانڈر آصف غفور کے ساتھ چمن ایف سی پورٹ میں مذاکرات ہوئے۔ کورکمانڈر آصف غفور نے کمیٹی کے ممبران سے کہا کہ یہ ریاست کا فیصلہ ہے کہ یکم نومبر سے ہر افغانی یا غیرملکی کے پاکستان میں قدم رکھنے کیلئے پاسپورٹ اور ویزا لازمی شرط ہے جس کے بغیر انہیں پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہو گی۔ تاہم چمن کے عوام کے لیے ایک مخصوص میکنزم بنانے کے لیے حکام بالا سے سفارشات کی جائیں گی اور سرحد پر روزگار کے مزید مواقع بھی دیئے جائیں گے۔ پرامن احتجاج اور دھرنا ہر شہری کا جہموری حق ہے لیکن ہم کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔ چمن بارڈر ایک انٹرنیشنل بارڈر ہے جہاں روزانہ ہزاروں افراد کی آمدورفت رہتی ہے۔ ملک میں امن وامان کا مسئلہ ہے، پاکستان کی ہر سرحد پر لیگل دستاویزات پر آمدورفت ریاست کی اولین ترجیح ہے۔

اب تک کیا پیش رفت ہوئی؟
لغڑی یونین کے صدر غوث اللہ اچکزئی نے بتایا کہ دھرنے کے 40 دن مکمل ہوئے لیکن حکومت نے کوئی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کمیٹی نے 14 نومبر کو پانچ رکنی وفد اسلام آباد بھیجا جس نے مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈران اور سینیٹرز سے ملاقاتیں کیں۔ وفد وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی سے بھی ملا اور انہیں چمن کے لوگوں کی مشکلات سے آگاہ کیا لیکن اب تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ جب دھرنے کو ایک ماہ مکمل ہوا اور حکومت نے کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی تو ہم نے پولیو مہم کا بائیکاٹ کر لیا اور 20 نومبر کو پاک افغان بین الاقوامی شاہراہ کو ہر قسم ٹریفک کے لیے بند کر دیا۔ بارڈر کی بندش سے روزانہ لاکھوں روپوں کے نقصانات ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب وہ محنت کش طبقہ جو روزانہ کی بنیاد پر 800 سے لے کر 1000 روپے تک کماتے تھے وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں جس کی زندہ مثال گل شاہ نامی نوجوان ہے جس پر ٹی این این نے رپورٹ بھی بنائی۔ کل بھی ایک نوجوان نے خودکشی کرنے کی کوشش کی۔
غوث اللہ اچکزئی کے مطابق یہ احتجاج اس وقت رنگ لے آئے گا جس دن پورا پشتون بیلٹ احتجاجی دھرنے دے اور پنجاب اور سندھ سے ملنے والی قومی شاہراہیں بلاک کر دے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے کل ایک کارنر میٹنگ میں کہا کہ چمن احتجاجی دھرنے کے حوالے سے 2 دسمبر کو خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی 50 برسی کے موقع پر ایک اہم اعلان کیا جائے گا۔ عوامی نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی خوشحال گروپ، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ اور پشتون تحفظ موومنٹ جمعہ کو چمن احتجاجی دھرنے کے حق میں صوبہ گیر احتجاجی مظاہروں کا اعلان کر چکی ہیں۔

غوث اللہ اچکزئی نے بتایا کہ اب بھی وقت ہے حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور ہمارے جائز مطالبات کو تسلیم کر لے۔ اگر خدانخواستہ کل کوئی واقعہ پیش آیا اور پرتشدد مظاہرے شروع ہوئے تو اِس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر ہو گی۔ ہمارا احتجاج اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں ہوتے۔
بدھ، 29 نومبر کو، گورنر بلوچستان عبدالولی کاکڑ ایک روزہ دورے پر چمن آئے۔ ڈپٹی کمشنر افس کمپلیکس ہال میں ایک جرگہ منعقد ہوا جس میں قبائلی عمائدین کے ساتھ دھرنا کمیٹی کے شرکاء بھی موجود تھے۔ کمیٹی سے مذاکرات کے دوران ولی کاکڑ نے کہا: "مجھے احساس ہے کہ چمن کے لوگوں کا زریعہ معاش بارڈر سے منسلک ہے اور یہاں پر قبائل آباد ہیں جن کی رشتہ داریاں سرحد کی دونوں جانب ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہاں پر ایک طبقہ ہے جنہیں مقامی زبان میں لغڑی کہتے ہیں۔ میں اسے لغڑی نہیں بلکہ چھوٹے تاجر کہوں گا، اُن کا بھی احساس ہے کہ اگر ایک دن کے لیے ان کا کام رک جائے تو ان کا پورا خاندان متاثر رہے گا۔ اِن مشکلات اور مطالبات سے متعلقہ حکام کو آگاہ کریں گے اور 5 دن میں باہمی افہام و تفہیم سے ایک پائیدار حل نکالیں گے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button