”اگر ہمیں واپس افغانستان بھیج دیا گیا تو ہم بھوکے مر جائیں گے”
سلمان یوسفزئی
”ہمارے گھر میں کوئی مرد نہیں ہے جبکہ افغانستان میں خواتین پر کام اور بچیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ہے، یہاں میں اور میری بڑی بیٹی کام کرکے اپنا گھر چلا رہی ہیں لیکن اگر ہمیں واپس افغانستان بھیج دیا گیا تو ہم بھوکے مر جائیں گے۔”
پشاور میں اپنی تین بیٹوں کے ہمراہ کرایہ کے مکان میں مقیم پچاس سالہ سپزلی زازئی پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیرملکیوں کے انخلا کے فیصلے پر پریشان ہیں۔ انہیں فکر ہے کہ اگر انہیں دوبارہ افغانستان بھیج دیا گیا تو نہ صرف وہ بھوکے مر جائیں گے بلکہ ان کی دو بیٹیاں تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جائیں گی۔
سپزلی زازئی کے بقول وہ افغانستان سے اس لیے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئیں کیونکہ وہاں ان کی بڑی بیٹی اور انہیں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی جبکہ ان کے گھر میں کوئی مرد نہیں ہے اس لئے ان کا وہاں رہنا مشکل ہوچکا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ پاکستان ہجرت کرنے کے بعد انکو اور ان کی بڑی بیٹی کو کام کرنے کی جبکہ ان کی دو چھوٹی بیٹیوں کو تعلیم جاری رکھنے کا موقع میسر ہوا اور وہ نہیں چاہتی کہ واپس افغانستان چلی جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اگر افغانستان واپس چلی گئیں تو ان کی طرح دوسری خواتین، جن کے گھروں میں کوئی مرد نہیں ہے اور اپنے خاندان کے اخراجات ان کے ذمے ہوتے ہیں، مشکلات کا شکار ہو جائیں گی۔
سپزلی زازئی کی بیٹی خکلا زازئی افغانستان میں دسویں جماعت طالبہ تھی کہ اس دوران افغانستان میں طالبان برسراقتدار آگئے اور دیگر بچیوں کی طرح وہ بھی اپنی تعلیم جاری رکھنے سے محروم ہوگئی۔ اپنی والدہ کے ساتھ پاکستان ہجرت کرنے کے بعد انہیں آٹھویں جماعت میں داخلہ مل گیا اور اب وہ نویں جماعت میں پڑھ رہی ہے۔ ان کے پسندیدہ مضامین کمیسٹری اور مھیتس ہے اور وہ کمپیوٹر سیکشن میں مزید تعلیم حاصل کرنے کی خواہشمند ہے۔
دوسری جانب ملک بھر سے غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔ محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کے مطابق سترہ ستمبر سے اب تک مجموعی طور پر ایک لاکھ نوے ہزار چار سو اٹھارہ غیرملکی افغان باشندے واپس افغانستان لوٹ چکے ہیں جن میں ایک لاکھ نواسی ہزار دو سو نواسی غیرملکی رضاکارانہ طور پر وطن واپس چلے گئے جبکہ ایک ہزار ایک سو اونسٹھ غیرملکی خاندانوں کو ملک بدر کیا گیا ہے۔