ڈیرہ اسماعیل خان کی پہلی شاعرہ جن کی کتاب کا بھارت میں بھی ترجمہ شائع ہوچکا ہے
بشریٰ محسود
ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والی شاعرہ صائمہ قمر کا کہنا ہے کہ شروع میں انکو کئی چیلنجز کا سامنا رہا تاہم انہوں نے ہمت نہ ہاری اور آج وہ چار کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شروع میں لوگوں نے انکو تنقید کا نشانہ بنایا تاہم انکے گھر والوں نے ہمیشہ انکا ساتھ دیا۔
صائمہ قمر نے ابتدائی تعلیم شمالی پنجاب کے علاقے لال حسین سے حاصل کی اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ایم اے میں گولڈ میڈل لیا اور چار کتابوں کی مضنفہ ہونے کے ساتھ ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان کی ادبی تاریخ میں پہلی شاعرہ ہے جن کی نظموں کی کتاب کا انگریزی ترجمہ پڑوسی ملک بھارت میں شائع ہوا ہے۔
صائمہ قمر کا کہنا ہے کہ وہ آجکل ایم فل کررہی ہیں اور پڑھنا لکھنا انکے لیے اکسیجن کا کام کرتا ہے۔ صائمہ قمر کہتی ہیں کہ لکھنا پڑھنا تو انکے خون میں شامل تھا کچھ گھرانہ بھی ادبی ملا ادبی ماحول تھا سارا، لہذا لکھنے کی طرف انکا دھیان قدرتی طور پر چلا گیا اور انہوں نے چھوٹی عمر میں ہی چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا۔ اُس کے بعد پڑھائی کی مصرفیات کے باعث یہ کہانیاں منظر عام پر نہیں آسکی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ خاص طور پرڈاکٹر ریاض مجید کا شکریہ ادا کرنا چاہیں گی کیونکہ انکی وجہ سے وہ آج چار کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ ڈاکٹر ریاض مجید کی حوصلہ افزائی کے بعد انکی پہلی کتاب ” مجھے باران میں جانا ہے تھا” جو نظموں اور غزلوں کی کتاب ہے منظر عام پر آئی۔ دوسری کتاب "قرض می کا” نظموں کا مجموعہ ہے اور تییری کتاب "حسین کی کہکشاں ہے کربل” منظر عام پر آئی۔ انکی چوتھی کتاب "دعاکے رتھ پر” جو نظموں کی کتاب ہیں۔
اُس کے بعد انہوں نے مرزا غالب، علامہ اقبال، میر تقی میر، میر انیس، فیض احمد فیض، احمد فراز اور دور حاضر کے شاعر ڈاکٹر وحیداحمد ، علی اکبر ناطے اور سرمد سورش انکے زیر مطالعہ رہے۔
میری کتابوں کو جہاں پذیرائی ملی اُن میں سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ میری چوتھی کتاب” دعا کے رتھ پر” کا انگریزی ترجمہ بھی بھارت میں شائع ہوچکا ہے۔ صبا قمر کہتی ہیں کہ انکی بھی دوسری خواتین کی طرح مصروفیات ہے گھر گھر داری اور اس کے علاوہ وہ ایک نجی سکول میں پڑھاتی بھی ہیں۔
صائمہ قمر کہتی ہیں کہ ہر انسان کو اللہ نے غیر معمولی صلاحیت دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے جس کو بروئے کار لاکر وہ نہ صرف اپنا نام کما سکتا ہے بلکہ ملک و قوم کی ترقی میں بھی کردار ادا کرسکتا ہے۔ صائمہ قمر کا کہنا ہے کہ انکی مزید دو کتابیں زیر تباع ہے اور امید ہے کہ جب وہ منظر عام پر آئیں گی تو لوگوں کو پسند آئے گی۔
شاعر سرمد سروش کہتے ہیں کہ صائمہ قمر کی نظموں کا مجموعہ ‘ دعا کے رتھ پر’ تقریبا ایک سال سے انکے زیر مطالعہ ہے۔ کئی بار اس پر بات کرنے کو کمر بستہ ہوا لیکن اپنی بے زار طبعیت کے زیر اثر لب بستہ ہی رہا۔ انکا کہنا ہے کہ صائمہ قمر کو انہوں نے گزشتہ سال ڈی آئی خان مشاعرے میں سنا تھا اور انکو یہ فیصلہ کرنے میں ذرا بھی تأمل نہیں ہوا کہ وہ غیر معمولی نظم گو ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ صائمہ کی نظم کی جس خوبی نے انکو اول اول اپنی جانب متوجہ کیا وہ ان کا اسلوب تھا۔ صائمہ قمر بیک وقت پابند اور آزاد نظم کو ذریعۂ اظہار بناتی ہیں اور دونوں ہی میں کامیاب نظر آتی ہیں۔ ان کے یہاں موضوعات کا تنوع ہے، کتاب کے ایک بڑے حصے پر مذہب اور تاریخی واقعات غالب ہیں۔ یہ نظمیں شاعرہ کی جانب سے اظہار عقیدت بھی ہیں اور کئی ایک اس سے آگے بڑھ کر ظلم اور اندھیروں کے خلاف مزاحمتی رنگ بھی اختیار کرتی ہیں۔ صائمہ قمر کے یہاں مزاحمتی رنگ ان کے دوسری نظموں میں بھی جا بجا ہے۔ ‘جنگل میں آواز’ اس حوالے سے ان کی اہم نظم ہے
"میں کہتی تھی ان سے مجھے مار ڈالو
مگر میری آنکھیں نہ تم قید کرنا
میں کہتی تھی، میں نے ہے اک خواب دیکھا
جہاں نیک روحیں
سیہ میتوں پر بہت رو رہی تھیں”
صائمہ قمر کے یہاں مذہب رنگ ہونے کے باوجود وہ اس معاملے میں تعصب سے بالا نظر آتی ہیں۔ ان کی نظموں میں ہندوستان کے تہذیبی تنوع کے زوال کا نوحہ بھی ہے اور بین المذاہب ہم آہنگی کی شدید خواہش بھی
میں اپنی نانو کی سہمی سہمی”
اجڑتی آنکھوں کو دیکھتی ہوں
تو سوچتی ہوں
کہاں گیا ہے
چلہار کا ٹھنڈا میٹھا پانی
پھدکتی چڑیاں شجر کی شاخوں پہ جھولتی تھیں
پھلوں سے جھکتی جوان شاخیں
زمیں پہ اگتے ہزار پھولوں سے کھیلتی تھیں
مثال جنت تھے گاؤں میرے
سجے تھے پائل سے پاؤں میرے
کئی خزانوں بھرے بھڑولے
اس ایک گاؤں میں سکھ مسلمان اور ہندو بسے ہوئے تھے
نہ طعنہ دیتے نہ قتل کرتے نہ کفر کے وہ لگاتے فتوے”
(نظم: مہاجر)
شاعر سرمد سروش کہتے ہیں کہ نظم دعا، سخن ور، مہاجر، بہشت غدیر، اونٹ پرست لوگ، تابوت سکینہ، وصیت اور آگہی کا عذاب ایسی نظمیں ہیں جو صائمہ قمر کو موجودہ عہد کے نمائندہ نظم نگاروں کی صف میں لا کھڑا کرتی ہیں۔
نظم: دعا
دعا کے رتھ پر سوار لڑکی
تمہاری آنکھوں کو
معجزوں پر یقین کیوں ہے
زمیں ہے بنجر
فلک مقفل
نوائیں بے بس
تمنا بے کل
دعا کے رتھ پر سوار لڑکی
تمہاری قسمت میں کوئی جگنو نہ کوئی نغمہ
کوئی کنایہ نہ استعارہ
حنا سے بوجھل ہتھیلیوں پر اداس اور نا مراد آنکھیں
خط مقدر کو دیکھتی ہیں
سوالی نظریں یہ پوچھتی ہیں؟
نگاہ الفت کے خوش نما ،خوش گلو پرندے
گلوں سے بوجھل شجر پہ پھر سے حیات اپنی بسر کریں گے
کوئی محبت بھرا صحیفہ
زمین دل پر اتر سکے گا؟
دعا کے رتھ پر سوار لڑکی
گماں یقیں میں بدل سکے گی؟
کسی بھی معجز نما گھڑی کو
وہ اپنی مٹھی میں بھر سکے گی؟