لائف سٹائل

پاکستان میں بڑھتی مہنگائی سے خواتین بھی پریشان ‘بچوں کو کھانا کھلائے یا پڑھائے’

 

حدیبیہ افتخار

 

"پہلے صبح اٹھتے ہی ٹیلی وژن آن کرنا ہمارے گھر کا معمول تھا مگر اب تو ٹی وی آن کرنے سے بھی ڈر لگتا ہے کہ نا جانے رات کے اندھیرے میں حکومت نے عوام پر مہنگائی کا کوئی نیا بم تیار نہ کیا ہو”

یہ کہنا ہے نوشہرہ سے تعلق رکھنے والی نورین اقبال کا جو ایک ہاؤس وائف ہے اور دیگر خواتین کی طرح مہنگائی سے پریشان ہے۔

نورین اقبال کہتی ہے کہ پہلے کچھ تو سمجھ آتا تھا کسی چیز کی قیمت میں اضافہ ہوتا تو کئی مہینے بعد ہوتا اور وہ بھی 1 سے 2 روپے کا ہوتا تھا اس کو ایڈجسٹ کرنا آسان تھا مگر اب تو ہر روز مہنگائی ہی مہنگائی کی خبریں ہے۔ سمجھ ہی نہیں آتی کیسے خرچ پورا کریں، پیسے ہاتھ میں آتے تو ہیں مگر کیسے چلے جاتے ہیں یہ پتہ ہی نہیں چلتا۔

اس وقت پاکستانی عوام کمرتوڑ مہنگائی سے نبرد آزما ہے گزشتہ عرصے سے ملک میں مہنگائی کا تو جیسے طوفان امڈ آیا ہے ہر چیز کی قیمتیں دگنی ہوگئی ہے مہنگائی نے تو جیسے عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

نورین اقبال نے بتایا کہ آئے روز مہنگائی کی وجہ سے جیسے ذہنی مریض بن گئے ہیں۔ بچے بھی ضد کرتے ہیں کہ ان کو ویسے ہی اچھی خوراک چاہیئے مگر مہنگائی کی وجہ سے اب جیب اجازت نہیں دیتی کہ مہنگی چیز خرید سکے۔

نورین اقبال نے بتایا کہ ان کے میاں جو کماتے ہیں ان سے اب گھر کا خرچ بمشکل پورا ہوتا ہے۔ بچوں کی سکول فیس کے لئے تو پیسے بچتے ہی نہیں اور جب سکول فیس تھوڑی لیٹ ہوجائے تو سکول انتظامیہ بچوں کو ڈانٹتے ہیں جس کی وجہ سے بچے سکول جانے سے بھی کترا رہے ہیں اور ان کا دل پڑھائی میں نہیں لگتا۔
اوپر سے سکولز فیسیں بھی بڑھا رہے ہیں اب تو پرائیویٹ سکولز کی بڑھتی ہوئی فیسوں نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ بچوں سکول سے نکال لیں۔

نورین کہتی ہے کہ پہلے ان کے بچے باقاعدگی سے ٹیوشنز کے لئے جاتے تھے اور وہ بآسانی گھر کے خرچ سے کچھ پیسے بچاکر ان کی ٹیوشن فیس دیا کرتی تھی مگر اب یہ ممکن نہیں رہا اور ان کو مجبوراََ اپنے بچوں کو ٹیوشن سے اٹھانا پڑا اور اب تو مہنگائی اتنی ہوگئی ہے کہ پرائیویٹ سکول سے نکال کر سرکاری سکول میں داخل کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ سال کی نسبت 2023 میں مہنگائی کی شرح میں 27.38 اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

اقتصادی ماہرین کے مطابق آنے والے مہینوں میں پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں مزید اضافہ کا امکان ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اثر اشیاء خوردونوش کی قیمتوں پر ڈائریکٹ پڑتا ہے جس سے عوام مزید مشکلات کا شکار ہوسکتے ہیں۔

حالیہ مہنگائی کی لہر کے حوالے سے ایک دوسری خاتون سعدیہ نے بتایا کہ ہمارے پاس دو گاڑیاں تھی مگر جیسے ہی میرے شوہر کی جاب چلی گئی تو ایک گاڑی بیچ کر ہم نے ان سے کاروبار شروع کیا۔ گھر کا خرچ اس سے پورا ہوتا تھا اور خوشحال زندگی گزار رہے تھے لیکن جیسے جیسے مہنگائی نے زور پکڑ لیا مشکلات شروع ہوگئے اور اب تو اشیاء خوردنوش کی قیمتوں میں اتنا اضافہ ہوگیا ہے کہ گھر کا خرچ پورا کرنا بھی مشکل ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوا گاڑی چلانا مشکل تھا سو ہم نے دوسری گاڑی بھی بیچ دی کہ گھر کا خرچ تو پورا ہو۔ ویسے بھی پٹرول کی قیمتوں کو دیکھتے ہوئے گاڑیاں چلانا ہمارے بس کی بات نہیں تھی۔ اس لئے انہیں شو پیس کے طور پر گھر میں کھڑی کرنے کے سے بہتر تھا کہ انہیں بیچ کر گھر کی باقی ضروریات کو پورا کیا جائے۔

یاد رہے کہ اس ماہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر کے پٹرول کی قیمت 305.36 روپے اور ڈیزل 311.84 روپے فی لیٹر ہو گئی ہے جسکا مطلب ہے کہ اگست کے آغاز سے اب تک پٹرول کی قیمت میں 21 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

سعدیہ نے بتایا کہ اب تو بجلی کا بل آتا ہے تو سارے پیسے بجلی کے بل بھرنے میں چلے جاتے ہیں گھر کا سودا سلف لانے کے لئے پھر پیسے ہی نہیں بچتے۔

عوام احتجاجی مظاہریں اور جلوس نکال کر حکومت سے بار بار یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ ہوش کے ناخن لیں اور مہنگائی کم کرنے کے لئے اقدامات کریں لیکن حکومتی وزارء کے بیانات عوام پر بجلی بن کر گررہے ہے کہ مہنگائی میں کمی ابھی نہیں آرہی کچھ مہینے اور لگے گے جس کی وجہ سے عوام کی پریشانی مزید بڑھ رہی ہے اور انہیں بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button