پاکستان میں مقیم افغان صحافی کیا چاہتے ہیں؟
سلمان یوسفزئی
اگست 2021 میں افغان طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد لاکھوں افغان شہریوں نے طالبان کے خوف سے پاکستان سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک میں پناہ اختیار کر لی ہے۔ ان پناہ گزینوں میں جہاں دیگر شعبوں سے وابستہ افراد شامل ہیں وہاں ان میں ایسے صحافی بھی ہیں جنہوں نے خصوصی طور پر طالبان کے غیرانسانی سلوک سے بچنے کے لئے ہجرت کا راستہ چنا ہے۔
گلالئی (فرضی نام) افغانستان کے دارالحکومت کابل سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون صحافی ہیں۔ افغانستان میں جمہوریت کے دوران وہ شمشاد ٹیلی ویژن کے ساتھ بطور میزبان کام کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ دیگر غیرملکی میڈیا اداروں کے ساتھ بھی منسلک تھیں لیکن جیسے ہی طالبان کابل پر قابض ہوئے تو انہوں نے وہاں سے نکل کر پاکستان میں بطور ایک پناہ گزین پناہ لے لی۔ تقریباً دو سال پہلے گلالئی نے پشاور میں قدم رکھا۔ ان کیلئے یہ ایک کٹھن وقت تھا۔ وہ ایک ایسے شہر میں زندگی گزارنے آ گئی تھیں جو انہوں نے پہلے کبھی دیکھا ہی نہ تھا۔
‘وہ ایک مشکل وقت تھا جب میں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ میری کوشش تھی کہ جلد از جلد کسی ایسے ملک چلی جاؤں جہاں میری زندگی محفوظ ہو اس لیے میں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا۔ اور گزشتہ 2 سال سے یہاں پناہ گزین کی زندگی گزار رہی ہوں۔’
پاکستان میں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کرنے والی گلالئی کا کہنا تھا کہ وہ پشتو اور فارسی زبان پر عبور رکھتی ہیں۔ انہیں اردو بولنے، لکھنے اور سمجھنے میں مسائل کا سامنا ہے یہی وجہ ہے کہ انہیں یہاں کام کرنے کے مواقع بہت کم میسر آتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ کابل نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں لیکن طالبان کے خوف اور انہیں ملنے والی دھمکیوں نے انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہاں بھی انہیں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن میں ویزے کی تجدید اور پولیس کی جانب سے ان کے گھروں پر ‘ریڈ’ شامل ہیں۔
ان کے بقول وہ حال ہی میں پولیس کی بدسلوکی کے باعث ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہونے پر مجبور ہوئی ہیں۔
گلالئی کی خواہش ہے کہ وہ پاکستان سے کسی تیسرے ملک منتقل ہو جائے اور وہاں سیاسی پناہ لے کر زندگی گزار سکیں۔ انہوں نے فرانس ایمبیسی میں درخواست جمع کی ہے لیکن انہیں معلوم نہیں کہ وہ کب فرانس جانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ اوپر سے ویزے کی مدت بھی ختم ہونے کو ہے۔ اور اس ایک معاملے نے انہیں کئی الجھنوں میں مبتلا کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور: 30 سال سے زیراشاعت اخبار بند، ‘اب ہمیں نوکری کون دے گا؟’
پشاور میں مقیم ایک اور افغان صحافی سلیمان ژوندے کا تعلق افغانستان کے صوبہ خوست سے ہے۔ وہ کابل یونیورسٹی سے بی ایس جرنلزم میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر رہے تھے جب طالبان کابل پر قابض ہوئے اور یوں ان کی تعلیم ادھوری رہ گئی۔
انہوں نے بتایا کہ بارہویں جماعت کے بعد وہ افغانستان میں مختلف میڈیا اداروں کے ساتھ منسلک ہو گئے تھے جن میں ژمن ٹیلی ویژن، اولس غگ ریڈیو اور بیان ریڈیو شامل ہں۔ طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد بھی اپنی صحافتی ذمہ داریاں جاری رکھنے کی کوشش کی لیکن کئی طرح کی مشکلات نے انہیں افغانستان سے پاکستان منتقل ہونے پر مجبور کر دیا۔
ان کے بقول رپورٹنگ پر طالبان کی جانب سے انہیں کئی گرفتار کر کے بند کیا گیا اور حال ہی میں وہ ایک ماہ کی قید گزارنے کے بعد آزاد ہوئے ہیں۔
سلیمان ژوندے 15 اگست 2021 کے ایک سال بعد پاکستان آئے ہیں۔ اس دوران کئی بار ان کا کابل آنا جانا بھی ہوا ہے۔ وہ یہاں کچھ اداروں کے ساتھ کام کرنے کے خواہاں ہیں تاہم ان کا ویزا ختم ہو چکا ہے اور پاکستان میں کام کرنے کے لیے ویزا ضروری ہے۔
بصیر امیری کا شمار بھی ان افغان صحافیوں میں ہوتا ہے جو حالیہ سالوں میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
افغانستان کے صوبہ لغمان سے تعلق رکھنے والے بصیر امیری اشرف غنی کے دور اقتدار میں آریان ٹیلی ویژن کے ساتھ بطور رپورٹر منسلک تھے تاہم اس وقت وہ پشاور میں غیرملکی میڈیا کے ساتھ فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
بصیر کے مطابق وہ چھ ماہ کے ویزے پر پاکستان آئے ہیں جس کی مدت ختم ہو گئی ہے اور انہیں ویزے کی تجدید میں مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ویزے کی تجدید کے لیے ان سے 60 ہزار روپے تک رشوت مانگی گئی ہے اور وہ اتنی استطاعت نہیں رکھتے۔ اور یہی وہ وجہ بھی ہے کہ انہیں پاکستانی میڈیا میں کام کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔
‘میں نے یہاں کئی میڈیا اداروں کا وزٹ کیا لیکن وہ مجھ سے ویزہ مانگتے ہیں۔ میرا ویزہ چھ ماہ پہلے ختم ہو چکا ہے اور یہاں مجھے بغیر ویزے کے کوئی بھی ادارہ کام دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ہمیں یہاں سب سے بڑا مسئلہ ویزے کی تجدید کا ہے۔’
بصیر کے بقول اب حال ہی میں وہ جرمن میڈیا ادارے ( ڈی ڈبلیو) پشتو سروس کے ساتھ بطور فری لانس جرنلسٹ منسلک ہوئے ہیں اور انہی پیسوں سے وہ اپنا گزربسر کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں سینکڑوں افغان صحافیوں کو ویزے کی تجدید کا مسئلہ ہے۔ افغان قونصلیٹ بھی اس سلسلے میں ان کی کوئی مدد نہیں کرتا کیونکہ ان کے بقول افغان قونصلیٹ طالبان کے کنٹرول میں ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ ہمیں نیا ویزہ جاری کریں۔
اس حوالے سے پشاور میں افغان قونصلیٹ سے ان کا موقف جاننے کے لیے کوشش کی گئی تاہم ان کی جانب سے تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
مزید پڑھیں: ‘آپ پاگل ہو گئے ہو، میری آپ سے کیا دشمنی ہے؟’
پاکستان میں میڈیا کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد پاکستان آنے والے 74 فیصد افغان صحافی پاکستانی اور بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے اپنا صحافتی کریئر جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد متعدد افغان صحافیوں نے فریڈم نیٹ ورک سے رجوع کیا۔ ان کے بقول تنظیم یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ افغان باشندوں کو پاکستان میں کیا مسائل درپیش ہیں۔
اقبال خٹک کے بقول اس وقت پاکستان میں آئے ہوئے افغان صحافیوں کی صحیح تعداد کے بارے میں معلومات نہیں ہیں لیکن یہ بات تو طے ہے کہ ان تمام افراد کو فوری طور پر انسانی بنیادوں پر مدد کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (CPJ) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈیڑھ سو کے قریب افغان صحافی موجود ہیں جو اقوام متحدہ کے ایک پروگرام کے تحت دوسرے ملکوں کو نقل مکانی کے فیصلے کے منتظر ہیں۔ مختلف اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی میں کام کرنے والے یہ صحافی طالبان کی حکومت آنے کے بعد جان بچا کر سرحد پار کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
اُن کے بقول پاکستان آنے والے افغان صحافیوں اور دیگر باشندوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ روزگار ہے۔ کیوں کہ وہ اپنے ساتھ جتنی رقوم لائے تھے وہ تیزی سے خرچ ہو رہی ہیں۔
ادھر اقبال خٹک کہتے ہیں کہ افغان باشندے پاکستان میں بینک اکاؤنٹ نہیں کھول سکتے جب کہ ویزا کی میعاد ختم ہونے کے بعد وہ دیگر ملکوں سے آن لائن رقوم بھی نہیں منگوا سکتے۔
خیال رہے کہ 15 اگست 2021 کے بعد ہزاروں کی تعداد میں افغان پناہ گزین پاکستان منتقل ہوئے۔ پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے ترجمان قیصر آفریدی کے مطابق پاکستان میں اس وقت 14 لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ افغان پناہ گزین موجود ہیں جن میں زیادہ تر خیبر پختونخوا میں مقیم ہیں جبکہ آٹھ لاکھ سے زیادہ ایسے ہیں جن کے پاس یہاں پی او آر (پروف آف رجسٹریشن) کارڈ تو نہیں ہے لیکن ان کے پاس یہاں رہنے کے لئے درکار دستاویزات ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں غیررجسٹرڈ افغان بھی رہتے ہیں۔
غیرقانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزین پاکستان میں یا تو بے روزگار ہیں یا یومیہ اجرت پر مزدوری کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رہائش پذیر افغان پناہ گزینوں کی آبادی کا ایک تہائی خواندہ ہے۔ 14 لاکھ میں صرف 22 اعشاریہ 5 فیصد معاشی طور پر فعال ہیں۔ زیادہ تر افغان پناہ گزین اس لئے قانونی/غیرقانونی طور پر منتقل ہوئے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ یہاں سے یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک جا سکیں تاہم قانونی اسناد نہ ہونے کی وجہ سے وہ یہاں پھنس جاتے ہیں۔
نوٹ: یہ سٹوری پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) تحقیقاتی فیلو شپ کا حصہ ہے۔