لائف سٹائل

پشاور: 30 سال سے زیراشاعت اخبار بند، ‘اب ہمیں نوکری کون دے گا؟’

سلمان یوسفزئی

"مجھے گزشتہ 3 ماہ سے تںخواہ نہیں ملی تھی۔ مجھے امید تھی کہ اس ماہ کچھ نہ کچھ مل جائے گا لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ تںخواہ ملنا تو دور کی بات ہم پر اپنے بچوں کے لیے رزق حلال کمانے کے دروازے ہی بند کر دیئے جائیں گے۔”

30 سالہ محمد کلیم گزشتہ 10 سالوں سے پشاور میں صحافتی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ وہ پشاور کے ایک مقامی اخبار، ‘روزنامہ سرخاب’، کے ساتھ بطور رپورٹر کام کرتے تھے تاہم محکمہ اطلاعات خیبر پختونخوا کی جانب سے 30 سالوں سے زیراشاعت ‘روزنامہ سرخاب’ کی بندش کے بعد وہ اپنے اور بچوں کے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں۔

رواں سال 3 اگست کو خیبر پختونخوا کے محکمہ اطلاعات کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا جس میں روزنامہ سرخاب کی انتظامیہ پر خبریں کاپی پیسٹ کرنے کا الزام عائد کر کے اسے سیکشن 19 کی خلاف ورزی قرار دیا اور ڈائریکٹر جنرل انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشن نے اخبار کی ڈیکلریشن منسوخ کر دی۔

کلیم نے بتایا کہ اس وقت وہ ایک مشکل وقت سے گزر رہے ہیں۔ گھر کی ذمہ داری، چار بچوں کے سکول کے اخراجات اور بے تحاشہ مہنگائی ان کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہی ہے کیونکہ پشاور سمیت ملک بھر میں میڈیا ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں اور اس صورتحال میں نئی جگہ نوکری ملنا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اخبار میں ان سمیت 6 افراد کام کرتے تھے جو سارے بے روزگار ہو گئے ہیں۔ ان میں سے ایک فوٹو گرافر، 3 ایڈیٹرز اور 2 رپورٹرز شامل ہیں۔ کلیم کا دعویٰ ہے کہ موجودہ نگران صوبائی حکومت نے روزنامہ سرخاب کو سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے بند کیا ہے۔ ان کے بقول روزنامہ سرخاب سابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی کے بھائی لیاقت یوسفزئی کا ہے اس لیے اخبار پر کاپی پیسٹ کا الزام عائد کر کے اس کی ڈیکلریشن منسوخ کر دی گئی ہے۔

اخبار کے مالک لیاقت یوسفزئی نے بتایا: "یہ اخبار سابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی کا نہیں ہے۔ میں گزشتہ 13 سالوں سے اس اخبار کا ایڈیٹر اور صحافتی اقدار سے باخبر ہوں۔ سرخاب کا اپنا ایڈیٹر ڈیسک اور رپورٹرز موجود ہیں جن کا کام خبر لانا اور شائع کرنا ہے۔”

دوسری جانب روزنامہ سرخاب کی بندش کے بعد سابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا: "میرے بھائی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اخبار کا قصور صرف یہ ہے کہ اس کا چیف ایڈیٹر میرا بھائی ہے۔”
ان کے بقول نگران حکومت نے پانچ ماہ پہلے سرکاری اشتہارات بند کئے تھے جس کی وجہ سے ملازمین کی تنخواہیں بھی نہیں دی جا رہی ہیں۔

محمد کلیم نے نگران صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ سرخاب کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہ بنائے اور ملازمین کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اخبار کی ڈیکلریشن کو بحال کیا جائے تاکہ وہ معاشی مشکلات سے بچ سکیں۔

‘اخبار کو بند کر کے صحافیوں کو بے روزگار کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی’

4 اگست 2023 کو خیبر یونین آف جرنلسٹس کی کال پر صحافی برادری نے روزنامہ سرخاب کی بندش کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرے میں خیبر یونین آف جرنلسٹس اور پشاور پریس کلب کے قائدین سمیت بڑی تعداد میں صحافیوں نے شرکت کی۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر صوبائی حکومت اور اخبار کی بندش و ڈیکلریشن منسوخی کے خلاف نعرے درج تھے۔

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے پشاور پریس کلب کے سابق صدر ایم ریاض کا کہنا تھا کہ میڈیا انڈسٹری پہلے سے ہی بدحالی کا شکار ہے ایسے میں ایک اخبار کو بند کر کے درجنوں کارکن صحافیوں کو بے روزگار کر دیا گیا جو افسوسناک امر ہے۔

پشاور پریس کلب کے صدر ارشد عزیز ملک کا کہنا تھا کہ کسی ڈکٹیٹر کی حکومت میں بھی ایسا نہیں ہوا جیسا اس نگراں صوبائی حکومت میں کیا گیا ہے۔ اخبار کو بند کر کے صحافیوں کو بے روزگار کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جبکہ اس فیصلے کے خلاف ہر پلیٹ فارم پر احتجاج بھی کیا جائے گا اور آواز بھی اٹھائی جائے گی: "اگر ہمیں عدالت جانا پڑا تو ہم وہاں بھی جائیں گے کیونکہ ہمارے لیے اخبار کا ورکر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہم اسے بے روزگار نہیں ہونے دیں گے۔”

خیبر یونین آف جرنلسٹس کے صدر ناصر حسین نے کہا کہ تین اگست کا دن خیبر پختونخوا کی صحافتی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب ایک اخبار کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا کر نہ صرف بند کر دیا گیا بلکہ اس کی ڈیکلریشن تک منسوخ کر دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اپنے سیاسی انتقام کی خاطر کارکن صحافیوں کے گھروں کا چولہا بند کرنے سے گریز کرے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اخبار کی بندش کا فیصلہ فوری طور پر واپس لیا جائے بصورت دیگر احتجاج کا دائرہ کار مزید پھیلا دیا جائے گا۔

محکمہ اطلاعات خیبر پختونخوا کا موقف

دوسری جانب سیکرٹری محکمہ اطلاعات خیبر پختونخوا مختیار خان نے بتایا: ”ہم نے قانون کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ اگر کوئی ادارہ محکمہ اطلاعات و نشریات کے وضع کردہ قانون کو فالو نہیں کرے گا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔”
ان کے بقول روزنامہ سرخاب کی سرکولیشن 60 ہزار کے قریب ظاہر کی گئی تاہم اخبار کی کاپیاں 251 سے بھی کم چھپتی ہیں۔ اسی طرح اخبار میں شائع ہونے والا بیشتر مواد دوسرے اخبارات سے کاپی شدہ ہوتا ہے جو قانون کی خلاف ورزی ہے۔

قانون میں سیکشن 19 کی وضاحت کرتے ہوئے سیکرٹری انفارمیشن نے بتایا کہ قانون میں ادارے کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر کوئی اخبار کسی دوسرے ادارے سے مواد کاپی پیسٹ کر کے شائع کرتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ محکمہ اطلاعات کی جانب سے روزنامہ سرخاب کو شوکاز نوٹس بھی دیا گیا تاہم تسلی بخش جواب نہ ملنے کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائی کرنا پڑی۔

سیکرٹری انفارمیشن کے مطابق روزنامہ سرخاب کے علاوہ چھ مزید اخبارت کو بھی خلاف ورزی کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا جا چکا ہے تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ مذکورہ چھ اخبارات نے کیا خلاف ورزی کی ہے۔

انہوں نے سیاسی انتقام کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ یہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں ہے۔ محکمہ اطلاعات خیبر پختونخوا ایک سرکاری ادارہ ہے جو قانون کے اندر رہ کر کام کرتا ہے جبکہ ادارے کے پاس وہ تمام ثبوت موجود ہیں جن کی وجہ سے مذکورہ اخبار کی ڈیکلریشن منسوخ کی گئی ہے۔

تیسرا راستہ

اس حوالے سے آل پاکستان نیوز پیپر ایسوسی ایشن کے عہدیداروں سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطے کئے گئے لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔ تاہم آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی کے ایک عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مذکورہ اخبار کو مقتدر حلقوں کی جانب سے بند کیا گیا ہے کیونکہ اخبار کے مالک لیاقت یوسفزئی کے بھائی اور سابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے پاکستان تحریک انصاف سے راہیں جدا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

ان کا دعویٰ ہے کہ شوکت یوسفزئی اس وقت امریکا میں مقیم ہیں اور اخبار کی ڈیکلریشن منسوخی کے فیصلے پر نظرثانی کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہو گا۔ ان کے مطابق اخبار کی بندش سے ورکنگ جرنلسٹ متاثر ہوئے ہیں اس لیے ان کا مطالبہ ہے کہ محکمہ اطلاعات خیبر پختونخوا اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کر کے کوئی ایسا راستہ نکالے کہ اس اخبار میں کام کرنے والے ملازمین کو دوبارہ کام کرنے کا موقع فراہم ہو جائے۔

نوٹ: یہ سٹوری پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) تحقیقاتی فیلو شپ کا حصہ ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button