‘رقم وصولی کے وقت ہمیں جان ہتھیلی پر رکھنا پڑتی ہے’
نثار بیٹنی
‘بینظر انکم سپورٹ پروگرام ہم جیسے غریب خواتین کے لیے کسی غائبانہ امداد سے کم نہیں لیکن رقم وصولی کے وقت بہت دشواری اور ذلالت کے ساتھ ہمیں جان ہتھیلی پر رکھنا پڑتی ہے۔ پرائیوٹ فرنچائز پر رش کی وجہ سے سارا دن بھوکا پیاسا رہنا پڑتا ہے جبکہ پرائیوٹ فرنچائز پر عملے کی بدتمیزی بعض اوقات ہمیں احساس کمتری کا شکار کر دیتی ہے۔’
یہ کہنا ہے ڈیرہ اسماعیل خان کی رہائشی خاتون نور بی بی کا جو گزشتہ کئی سالوں سے بینظر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ملنے والی مالی امداد سے مستفید ہو رہی ہیں تاہم ان کے بقول مالی امداد کے حصول میں خواتین کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے نور بی بی نے بتایا کہ بعض دکاندار بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم سے ناجائز کٹوتی کرتے ہیں جبکہ اگر یہ رقم کسی خاتون یا ان کے شوہر، بھائی یا بیٹے کی بینک اکاؤنٹ منتقل کی جاتی تو خواتین کو دور دراز علاقوں سے آ کر پرائیوٹ فرنچائز پر دھکے نیں کھانے پڑیں گے اور فرنچائز عملے کی جلی کٹی باتیں سنے سے بھی انہیں نجات مل جائے گی۔
اس سوال، کہ وفاقی وزیر و چیئر پرسن بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شازیہ مری نے حال ہی میں بی آئی سی پی کے تحت ملنے والی رقم رجسٹرڈ خواتین کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے، کے جواب میں نور بی بی کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوجائے تو یہ ان کا غریب خواتین پر احسان ہو گا کیونکہ مقررہ برانچوں اور پرائیویٹ فرنچائزوں پر بعض مرد حضرات دیہاتوں کی سادہ اور مجبور خواتین کیساتھ ہتک آمیز سلوک کرتے ہیں جبکہ بعض اوقات گالم گلوچ پر بھی اتر آتے ہیں۔
ادھر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام آفس کے ایک فرد کے مطابق خواتین کو رقم دینے کا یہ طریقہ کار اب تبدیل ہو جانا چائیے کیونکہ اس طریقہ کار سے ناصرف آفس کے کام میں خلل پڑتا ہے، مقررہ برانچوں میں رش کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے بلکہ رقم کی وصولی کا یہ عمل معمول سے زیادہ طویل ہو جاتا ہے۔
ان کے مطابق وقت بدل چکا ہے 2008 کے مقابلے میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والی خواتین کی تعداد ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچ گئی ہے، ایسے میں مخصوص دنوں اور مخصوص وقت میں تمام رجسٹرڈ خواتین کو رقوم کی ادائیگی ممکن نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی قسط جاری ہونے کے 20 دن بعد بھی خواتین رقم کی وصولی کے لیے ماری ماری پھرتی ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ لہذا طریقہ کار کو تبدیل کیا جائے اور خواتین کو بنک اکاوئنٹ بنانے کا پابند کیا جائے تاکہ ان کی رقوم ان کے بنک اکاوئنٹ میں منتقل ہو جہاں چیک یا اے ٹی ایم کے ذریعے یہ رقوم باآسانی نکالی جاسکیں جبکہ اس طریقہ کار سے نا صرف کم وقت میں غریب گھرانے بہتر انداز میں مستفید ہوں گے بلکہ اس سے رقوم کی منتقلی اور رجسٹرڈ خاتون تک پہنچنے کا شفاف عمل بھی وجود میں آ جائے گا۔