بونیر: شاپر میں چاول کی تقسیم پر پابندی عائد، مبارکباد 100 روپے مقرر
نصیب یار چغزرئی
بونیر کے ایک گاؤں میں علمائے کرام نے سابقہ رسم و رواج ترک کرنے کے لئے نیا دستور پیش کیا ہے جس کا مقصد مہنگائی کے اس دور میں عام آدمی کو ریلیف دینا ہے۔
تحصیل چغزرئی کے انزہ میرہ گاؤں کے علمائے کرام کی جانب سے پیش کئے جانے والے دستور میں کہا گیا ہے کہ ہمارے ہاں شادی بیاہ، فوتگی اور معاشرتی زندگی میں ایسے رسم و رواج موجود ہیں جو شریعت اور معاشرے کے خلاف ہے اس لئے علمائے کرام نے مل بیٹھ کر اس پرسودہ رسومات کو ترک کرنے کے لئے نیا دستور پیش کیا ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے مولوی علیم سید نے بتایا کہ ہم نے متفقہ طور پر غمی خوشی اور معاشرتی تقریبات میں اصلاحات کے لئے 20 سے زیادہ نکات پیش کئے ہیں اور اگر گاؤں والے اس پر عمل پیرا ہوجائیں تو زندگی آسان ہوجائے گی۔
ان کے مطابق دستور میں کہا گیا ہے کہ بہن یا بیٹی کے بیاہ کرتے وقت فریزر، واشنگ مشین، ڈبل بیڈ الماری یا دیگر غیر ضروری سامان لے جانا منع ہوگا جبکہ اگر کوئی بہن بیٹی کے لیے کچھ کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں تو وہ چپ کے سے نقد پیسے دیا کریں۔
انہوں نے بتایا کہ شادی کی مبارکباد کے موقع پر صرف سو روپے مقرر کئے گئے ہیں اور اس دوران مہمانوں کو چائے بسکٹ پیش کی جائے، ولیمے اور خیرات کے بعد شاپر میں چاول کی تقسیم پر پابندی ہوگی جبکہ شادی یا نکاح کے وقت جنج ( بارات) میں 15 سے زائد افراد کا جانا ممنوع تصور کیا جائے گا۔
دستور میں 14 سال سے کم عمر بچوں کی موٹر سائیکل چلانے، طلباء کے سمارٹ فون کے استعمال، خوشی کے موقع پر ہوائی فائرنگ اور گاؤں میں اجنبی شخص کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ اس کے علاوہ بہن بیٹی کو شریعت کے مطابق جائیدار میں حصہ دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ مولوی علیم سید نے بتایا کہ دستور میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شادی کے موقع پر زیادہ تکلفات نہیں کئے جائیں گے، کسی کے ہاں بیمار پرسی کے موقع پر کوئی بھی چیز نہیں لیکر جائے گی جبکہ منشیات بھجنے والوں کے ساتھ سوشل بائیکاٹ کیا جائے گا۔
غمی کے موقع پر بھی ایک منشور پیش کرتے ہوئے علماء کرام کا کہنا ہے کہ ایک سالہ بچے کی فوتگی کے فاتحہ خوانی کے لیے خواتین اور مرد نہیں جائیں گے، جنازے کے بعد مردے کے چہرے کو دیکھنے پر پابندی ہوگی جبکہ عید کے موقع پر پہلے سے وفات پانے والوں کے گھروں میں جاننے اور قبروں پر حاضری دینا سختی سے منع ہوگا۔
علمائے کرام کا کہنا ہے کہ ہم نے یہ دستور ایسے وقت میں پیش کیا ہے کہ مہنگائی سے ہر کوئی پریشان ہے اور موجودہ دور میں ان رسومات کو پورا کرنا کسی کی بس میں نہیں ہے۔
دوسری جانب گاؤں والوں نے بھی دستور کو مانتے ہوئے کہا کہ اگر وہ اس پر عمل نہیں کرتے تو ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے جبکہ علمائے کرام نے بھی گاؤں کے رہائشوں، انتظامیہ اور دیگر مشران سے اپیل کی ہے کہ اس نکات کو عملی کرنے میں ہمارے ساتھ تعاون کریں۔