لائف سٹائل

کاسا 1000: بجلی کے اس منصوبے سے خیبر پختونخوا کو کیا فائدہ ہو گا؟

محراب شاہ آفریدی

پاکستان کو افغانستان کے راستے تاجکستان اور کرغزستان سے بجلی لائن اور سماجی ترقی کے منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے، منصوبے کے تحت بجلی کی ٹرانسمشن لائن کے اردگرد چار کلومیٹر کے علاقے میں پاکستان کمیونٹی سپورٹ پروگرام (پی سی ایس پی) کے تحت مقامی آبادی کو زندگی کی بنیادی سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں۔

یاد رہے کہ ستمبر 2013 کو اسلام آباد میں پاکستان، افغانستان، تاجکستان اور کرغزستان کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا۔ بعدازاں 12 مئی 2016 کو تاجکستان کے دارالحکومت دوشبنے میں پاکستان، تاجکستان، افغانستان اور کرغزستان کے درمیان توانائی کے اس مشترکہ منصوبے، سنٹرل ایشیاء ساؤتھ ایشیا پاور پراجیکٹ (کاسا 1000)، کا افتتاح کیا گیا تاہم منصوبے پر کام تاخیر کا شکار رہا اور آخرکار 2020 میں پاکستان میں باقاعدہ اس منصوبے پر کام شروع ہوا۔

پی سی ایس پی پشاور اور نوشہرہ کے ضلعی منیجر خالد عباس نے ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں یہ منصوبہ ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل کے سرحدی گاؤں اول خان کلے سے شروع ہوتا ہے اور پشاور سے ہو کر نوشہر میں اضاخیل تک پہنچتا ہے، اس کی لمبائی 113 کلومیٹر ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ لائن کے ایک طرف دو اور دوسری طرف دو دو کلومیٹر کے فاصلے پر رہائش پذیر لوگوں کو پی سی ایس پی منصوبے کے تحت وہاں کے مقامی افراد کے باہمی صلاح مشورے سے ترقیاتی منصوبوں کے لئے آگاہی کے ساتھ ساتھ فنڈ بھی مہیا کیا جاتا ہے۔ اُن کے بقول 160 دیہاتوں کی تقریباً پانچ لاکھ آبادی اس منصوبے سے مستفید ہو گی جس میں آبپاشی، آبنوشی، گلیوں کی پختگی، خواتین کیلئے ہنر کے مراکز، نوجوانوں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے حوالے سے تربیت اور کمیونٹی ہال کا قیام شامل ہیں۔

بجلی کی 113 کلومیٹر طویل یہ ٹرانسمشن لائن 70 فیصد خیبر، 35 فیصد پشاور اور 21 فیصد نوشہر کی حدود میں آئے گی اور اس بنیاد پر ترقیاتی منصبوں کی تقسیم بھی کی گئی ہے۔

خالد عباس کے مطابق بجلی لائن کے علاوہ سماجی بہبود کے منصوبوں کے لئے 15 ملین ڈالر مختص کئے گئے ہیں جس کے تحت اب تک 165 منصوبوں کی منظوری دی گئی ہے جن میں 109 خیبر جبکہ باقی پشاور اور نوشہرہ میں جاری کئے جائیں گے، ”چالیس لاکھ سے اسی لاکھ تک بجٹ ایک منصوبے پر خرچ ہو گا اور جون 2023 تک منصوبے پر کام مکمل کیا جائے گا جبکہ لائن بچھانے کا کام بھی جاری ہے جو کہ 2025 تک مکمل کیا جائے گا۔

لنڈی کوتل میں الفجر ویلفیئر کمیٹی بھی چار کلومیٹر میں ہونے والے کاموں سے مستفید ہوئی ہے، جنرل سیکرٹری زرین گل آفریدی کے مطابق یہ علاقہ تقریباً پانچ ہزار آبادی پر مشتمل ہے، ”اس سے پہلے ہماری جو لنک روڈ تھی وہ ناکارہ تھی جب بھی بارش ہوتی تو پیدل جانے کے قابل بھی نہ رہتی، بہت زیادہ مشکلات تھیں، منتخب نمائندگان کو بار بار اس سے آگاہ کیا لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا، ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس پراجیکٹ میں ہمارا علاقہ آیا ہے، پاکستان بننے کے بعد پہلی دفعہ اس طرح معیاری اور میرٹ پر کام ہوا ہے جس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سے ڈائریکٹ پانچ ہزار آبادی فائدہ اٹھا رہی ہے، چونکہ 82 لاکھ روپے منظور ہوئے ہیں ان سے ہم لنک روڈ اور اس کے ساتھ ساتھ پروٹیکشن وال تعمیر کریں گے، اب تک 51 لاکھ روپے خرچ کئے ہیں اور باقی پیسے تیسری قسط میں مل جائیں گے۔”

کمیٹی ممبر محمد حسین کے مطابق اس کمیٹی میں خواتین اور نوجوانوں کی نمائندگی بھی شامل ہے اور اُن کے مجوزہ منصوبے پی سی ایس پی تک پہنچا رہے ہیں، ”مقامی سطح پر خواتین کے پاس سلائی کڑھائی کا ہنر موجود ہے تاہم وہ محدود پیمانے، اور گاؤں کی سطح پر ہی کام کرتی ہیں جبکہ ہم چاہتے ہیں کہ مستقبل میں ان کے لئے ہنر کے مراکز کے ساتھ ان کی تیارکردہ مصنوعات کی مارکیٹنگ کے لئے بھی اقدامات ہونے چاہئیں تاکہ ان کو بہتر معاوضہ مل سکے، متعلقہ ادارے کے ساتھ نوجوانوں کے مجوزہ منصوبوں کے لئے بھی بات چیت جاری ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ مقامی نوجوانوں کو کمپیوٹر سکلز سکھائے جائیں تاکہ وہ اپنے لئے روزگار پیدا کر سکیں۔”

پی سی ایس پی منصوبے کی نگرانی عالمی بینک کر رہا ہے جس کے مطابق مذکوہ منصوبے کے تحت پاکستان کو اپنے حصے کی ایک ہزار میگاواٹ بجلی ملے گی، جبکہ موجودہ وقت میں افغانستان کو بجلی کی اتنی ضرورت نہیں تو اس وجہ سے پاکستان کو تین سو میگاواٹ اضافی بجلی بھی ملے گی۔

بینک کے ایک عہدیدار کے مطابق بجلی لائن ضلع نوشہرہ کے علاقے اضاخیل میں ایک مرکز تک پہنچائی جائے گی جس پر تیزی سے کام بھی جاری ہے جبکہ یہاں سے نیشنل گریڈ کو بجلی منتقل کی جائے گی۔ اُنہوں نے بتایا کہ پی سی ایس پی خیبر پختونخوا کے پلاننگ اینڈ ڈوپلیمنٹ کا منصوبہ ہے جو کرغزستان سے آنے والی بجلی کی بڑی لائن لگانے کے ساتھ ساتھ سماجی بہود کے منصوبوں کے لئے جاری کیا گیا ہے۔

عالمی بینک کے عہدیدار کے مطابق مذکورہ منصوبے پر 2020 میں کام شروع ہوا تھا اور ضلع خیبر، پشاور اور نوشہرہ میں مختلف مقامات پر کئی منصوبوں پر کام مکمل ہو چکا ہے جبکہ دیگر کئی منصوبوں پر کام جاری ہے، تمام منصوبوں کی نگرانی مقامی کمیٹیوں کے سپرد کی گئی ہے تاکہ نہ صرف کام کے معیار سے لوگ مطمئن رہیں بلکہ بجٹ میں دس فیصد حصہ مستفید ہونے والے افراد کی جانب سے ادا کرنے کی شرط رکھی گئی تاکہ وہ اس منصوبے میں حصہ دار ہوں اور مستقبل میں منصوبے کا خیال رکھیں۔

نوشہرہ کے رہائشی گل محمد نے بتایا کہ ٹیوب ویل اور اُس پر سولر سسٹم سے لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہو گا لیکن اُنہوں نے گاؤں کے پاس برساتی نالے کے قریب سیلابی ریلوں کی وجہ سے زرعی زمینوں کی کٹائی کو بھی اہم مسئلہ قرار دیا، ”2010 کے بعد ہر سال سیلاب مقامی لوگوں کی زرعی زمین اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے جس سے بچاؤ کے لئے حفاظتی پشتتوں کی تعمیر ضروری ہے اور اس سلسلے میں پی سی ایس پی والوں سے بھی بات کریں گے۔”

زرائع کے مطابق کرغزستان اور تاجکستان میں بھی منصوبے پر زیادہ کام مکمل کر لیا گیا ہے جبکہ افغانستان میں مسائل کے باعث منصوبے پر کام سست روی کا شکار ہے۔

مقامی لوگوں کے تحفظات اور درپیش چیلنجز

دوسری جانب ملک میں جاری توانائی بحران کے پیش نظر جہاں کاسا 1000 کا مقامی سطح پر خیرمقدم کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب اسی منصوبے کو لے کر ضلع خیبر کے عوام تحفظات کا شکار ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ٹیسکو کی جانب سے آج کل ضلع خیبر کو 24 گھنٹوں میں صرف دو گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے، اس سلسلے میں ضلع کی تینوں تحصیلوں میں الگ الگ کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جبکہ ایک کمیٹی ضلعی سطح پر بھی قائم کی گئی ہے، ان کمیٹیوں کے زیراہتمام احتجاج کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی جاری ہے۔

اس سلسلے میں آج بھی لنڈی کوتل کمیٹی کا ایک اجلاس ہوا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جب تک چھ گھنٹے بجلی کی فراہمی سمیت ان کے دیگر مطالبات حکومت تسلیم نہیں کرتی، تب تک نا صرف ان کا احتجاج جاری رہے گا بلکہ وہ مقامی گرڈ سٹیشن کا گھیراؤ بھی کریں گے اور کاسا 1000 منصوبہ بھی فعال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

کمیٹی نے اس حوالے سے حکومت کو تین دن کی مہلت اور بصورت دیگر جمعرات سے مستقل دھرنے کی دھمکی دی ہے۔

منصوبے کا تاریخی پس منظر

خطے میں پاکستان بھی اُن ممالک میں شمار کیا جاتا ہے جو عام ضروریات اور اقتصادی ترقی کے لئے توانائی کی کمی جیسے بنیادی مسئلے سے دوچار ہے۔ اس سلسلے میں 17 ستمبر 2013 کو اسلام آباد میں چاروں ممالک کے توانائی کے وزراء نے ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت 1300 میگاواٹ بجلی کرٖغزستان سے درآمد کر کے ایک ہزار پاکستان جبکہ تین سو میگاواٹ افغانستان کو فراہم کی جانی تھی۔

اس مجوزہ پراجیکٹ کو سی اے ایس اے 1000 (کاسا) کا نام دیا گیا۔ معاہدے کی رو سے وسطی ایشیاء کے دو ممالک کرغزستان اور تاجکستان اپنی اضافی 1300 میگاواٹ بجلی جنوبی ایشیاء کے دو ممالک پاکستان اور افغانستان کو فراہم کریں گے۔

کرغزستان اور تاجکستان دونوں ہی گرمیوں میں آبی وسائل سے اضافی بجلی پیدا کرتے ہیں لیکن سردیوں میں وہاں بجلی کی قلت ہوتی ہے، گرمیوں میں پیدا ہونے والی اضافی بجلی جمع نہیں کی جا سکتی اسی لئے وہ دیگر ممالک کو فراہم کی جا سکتی ہے جبکہ افغانستان اور پاکستان میں گرمیوں میں بجلی کی کھپت بڑھ جاتی ہے اور بحران پیدا ہو جاتا ہے۔

منصوبے پر 2014 میں کام شروع کرنے کا اردہ ظاہر کیا گیا تھا اور تکمیل کی مدت دو تین سال مقرر کی گئی تھی۔ اس طرح سستے نرخوں پر 1300 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ سسٹم میں شامل ہونا تھی۔ فنڈ کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ منصوبے کے لئے امریکہ، جاپان، ورلڈ بینک، اسلامی ترقیاتی بینک کے علاوہ گلف تعاون کونسل بھی مدد فراہم کرے گی۔

مئی 2016 میں منصوے کا باقاعدہ افتتاح تاجکستان کے دارالحکومت دوشبنے میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف، تاجک صدر، سابق افغان صدر اشرف غنی اور کرغزستان کے صدر نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ 750 کلومیٹر طویل تعمیراتی کام 2018 تک مکمل کرنا تھا، جبکہ کاسا 1000 کی مجموعی لاگت کا تخمینہ ایک ارب 17 کروڑ ڈالر لگایا گیا۔ بجلی کا ٹیرف 9.48 سینٹ فی کلو واٹ بتایا گیا جس میں تمام اخراجات شامل ہوں گے۔

خیال رہے کہ کاسا 1000 چار ممالک کو ٹرانسمیشن لائن سے جوڑنے والا پہلا بڑا منصوبہ ہے، طویل تعطل کے بعد سال 2020 میں منصوبے پر کام شروع ہوا جو کہ 2025 تک مکمل کر لیا جائے گا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button