”ساری رات جاگتے اور کانپتے گزر جاتی ہے”
حنا خالد
نوشہرہ کلاں سے تعلق رکھنے والی 55 سالہ بیوہ، سلطان بھی حالیہ سیلاب سے متاثر ہوئیں جو آج کل ایک خیمے میں اس موسم سرما کے شب و روز بسر کر رہی ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں سلطانہ نے بتایا کہ حالیہ سیلاب میں ان کے گھر کا کمرہ، باتھ روم اور دیواریں مکمل طور تباہ ہو گئیں جس کے بعد وہ ایک پرانے و بوسیدہ خیمے میں زندگی گزار رہی ہیں اور بے تحاشہ مسائل سے دوچار ہیں، ”ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں (چلتی ہیں) اور ساری رات جاگتے اور کانپتے گزر جاتی ہے تو کیا کریں، وہ بچہ لکڑیاں/خشاک جمع کرنے بھیج دیتے ہیں اور وہ جلا لیتے ہیں اور اک ساعت کیلئے گرم ہو جاتے ہیں لیکن اس کا کیا پھر سردی ہے، تو بس ایک خدا ہی کا آسرا ہے، وہی خدا ہماری مدد کرے اور یہ مسلمان ہماری مدد کریں، اور باتھ روم واتھ روم نہیں، ابھی کچھ ہے ہی نہیں بس یہاں شاپنگ بیگ میں پیشاب کر کے باہر پھینک دیتے ہیں۔”
سلطانہ نے بتایا کہ سیلاب کے بعد حکومت اور دیگر اداروں نے ان کا حال احوال نہیں پوچھا اور صرف اک ہی مرتبہ ایک بوری آٹا اور کچھ دیگر سامان انہیں دیا گیا اور باقی انہیں کچھ نہیں ملا۔
ان کا کہنا تھا کہ سردی بہت زیادہ ہے اور خیمے میں بڑی مشکل سے وہ دن رات بسر کر رہی ہیں، ”ایک تھیلا آٹھا دو گھی کے ملے، اتنا سا تھا (گھی)، وہ بھی مجھے اس سڑک پر ملے تھے یہان ان کے ہاتھوں سے مجھے (کچھ) نہیں ملا ہے نہ کسی نے مجھے پیسے دیئے ہیں، لوگوں میں تو پیسے بانٹ لئے گئے لیکن ہمیں نہیں دیئے گئے، میرے اس بیٹے کی شادی کو پانچ سال ہو گئے، نیا نیا ساز و سامان سارا چلا گیا کچھ باقی نہیں بچا۔”
ضلعی انتظامیہ نوشہرہ کے مطابق حالیہ سیلاب نے ضلع میں کل 475 مکانات کا نقصان پہنچایا جن میں سے 60 مکمل طور پر تباہ جبکہ 415 کو جزوی طور پر نقصان پہنچا تھا۔
سلطانہ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے مکان میں انہیں ایک کمرہ اور دیواریں بنا کر دی جائیں تاکہ ان کی مشکلات میں کمی آ سکے کیونکہ کھلے میدان میں زندگی گزارنا ان کے لئے بہت مشکل ہے، ”حکومت سے بس یہی مطالبہ ہے کہ یہ آبادی بنا کر دے دے، اور اگر آٹا، دانہ اور گھی دے سکے تو وہ الگ بات ہے، وہ اگر دیتی ہے تو اللہ ہی ان کا بھلا کرے بس اس عمارت/مکان کا مطالبہ ہے تاکہ ہمارے سروں کو چھت میسر آ سکے۔”
دوسری جانب اسسٹنٹ کمشنر نوشہرہ تنویر احمد کا کہنا تھا کہ سلطانہ کی ہر ممکن مدد کریں گے اور یہ جاننے کی کوشش کہ کہیں وہ کلیم اسیسمنٹ سے رہ تو نہیں گئی ہیں اور اگر کہیں باقی رہ چکی ہیں تو ان کے لئے فارم بھریں گے، اور اگر ان کا فارم گیا ہے تو پھر ان کی کوشش ہو گی کہ انہیں جلد سے جلد امداد مل سکے، ”پہلے تو یہ دیکھیں گے کہ یہ کلیم اسیسمنٹ سے باقی رہ گئے ہیں یا نہیں، ان کا فارم بھرا ہے یا نہیں، اگر بھرا گیا ہے تو ہم نے ان کا فارم آن لائن پی ڈی ایم کو بھیجا ہو گا، سب سے پہلے تو میں یہ چیک کروں گا، کسی این جی او کے ساتھ بھی رابطہ کر لیں گے تاکہ فوری طور پر جو ہو سکے وہ امداد انہیں مل سکے۔”
خیال رہے کہ حکومت نے سیلاب سے مکمل طور پر تباہ ہونے والے مکانات کے مالکان کے لئے چار لاکھ جبکہ جزوی نقصان اٹھانے والوں کے لئے ایک لاکھ 60 ہزار روپے امداد کا اعلان کیا ہے تاہم سلطانہ کی طرح ایسے کئی متاثرین سیلاب آج بھی اس امداد سے مکمل طور پر محروم ہیں۔