سیاستکالم

خیبر پختونخوا کا بچہ بچہ کتنے روپے کا مقروض ہے؟

محمد فہیم

قرض اتارو ملک سنوارو۔۔۔ یہ جملہ نواز شریف کے دوسرے دور میں کافی مشہور ہوا تھا، اس وقت عام شہریوں سے بھی امداد لی گئی اور یہ وعدہ کیا گیا کہ قرض اتاریں گے اور ملک سنواریں گے۔

لیکن ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ آج تقریباً 25 سال بعد قرض اتارنے کو نہیں بلکہ قرض لینے کو ملک سنوارنے کا زریعہ قرار دیا جا رہا ہے؛ وفاقی حکومت قرض پر قرض لیتی جا رہی ہے اور ہر قرضہ ملنے پر ایسے بغلیں بجائی جاتی ہیں جیسے کامیابی حکمرانوں کے قدم چول رہی ہے۔

وفاق نے تو قرض لینے کا ریکارڈ بنا ہی لیا ہے اب صوبے بھی اس دوڑ میں وفاق کو پیچھے چھوڑنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ حال ہی میں خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی اک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا پر قرضوں کا بوجھ 538 ارب 94 کروڑ روپے سے بھی بڑھ گیا ہے جس میں بین الاقوامی اداروں کی جانب سے موصول شدہ قرضے کا حجم 359 ارب 33 کروڑ روپے جبکہ امدادی اداروں سے مستقبل میں ملنے والا قرضہ 179 ارب 61 کروڑ 10 لاکھ روپے ہے یعنی یہ وہ قرض ہے جس کی امدادی اداروں نے بھی منظوری دے دی ہے۔

2017 کی مردم شماری کے مطابق خیبر پختونخوا کی کل آبادی 3 کروڑ 55 لاکھ ایک ہزار 964 نفوس پر مشتمل ہے اگر کل قرضے کی بات کی جائے تو 538 ارب 94 کروڑ 10 لاکھ روپے کا قرض ہر شہری کے ذمہ 15 ہزار 180 روپے 59 پیسے بنتا ہے، اس قرض میں ایک سال کے دوران 22 فیصد اضافہ ہوا ہے جو حیران کن بھی ہے اور پریشان کن بھی تاہم حکومت بالکل بھی پریشان نہیں ہے بلکہ جو صوبائی حکمران ہیں انہیں چین کی نیند بھی آ جاتی ہے اور وہ سکون سے سو بھی جاتے ہیں، انہیں اب بھی یہ اطمینان ہے کہ قرض لے کر ہی ملک اور صوبہ چلایا جائے گا اور اسی قرض کو اتارنے کیلئے مستقبل کی نسل کو گروی رکھ دیا جائے گا۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے 106 منصوبوں کیلئے قرضہ لیا ہوا ہے، اور جو قرض اب لیا جا رہا ہے اس کی واپسی نہ جانے کب ہو گی لیکن جو قرضہ لیا جا چکا ہے اگر اس کی واپسی کی بات کی جائے تو صوبے کے عوام صرف واپسی بھی کریں تو یہ قرض اتارنے کے لئے انہیں 29 سال درکار ہوں گے، اس وقت تک لئے گئے قرض کی واپسی کی آخری قسط 15 نومبر 2051 ہے یعنی آج پیدا ہونے والا بچہ جب 29 سال کا ہو جائے گا تب تک وہ اس کی پیدائش سے بھی پہلے لئے ہوئے قرضے کی ادائیگی کر رہا ہو گا۔

اس قرض کی واپسی کی نوعیت بھی عجیب ہے، حکومت کو جب پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کیلئے قرض ملا تھا تو ڈالر کی قیمت 104 روپے تھی، اور 33 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کا ایک قرض لیا گیا (دو مزید قرضے اس کے علاوہ ہیں) لیکن اب جب اس کی واپسی شروع ہو گی تو ڈالرکی قیمت 224 روپے کے قریب ہے یعنی ہم نے خرچ 104 روپے کئے تھے اور اب واپس 224 روپے کر رہے ہیں وہ بھی بلاسود اور اگر اس میں سود کو ملا دیا جائے تو شاید رونے والے خود کو ہلکان کر دیں اور یہی سوچیں کہ اتنا مہنگا گھاٹے کا سودا کر کے عوام کو کیا ملا؟

اگر اس میں حکمرانوں کی جیبوں میں جانے والے ”مال” کی بات کی جائے تو اس کا اندازہ ان پراجیکٹس کی تحقیقات کرانے سے ہی ہو سکے گا۔

لیکن یہ بات بھی اک حقیقت ہے کہ حکومت میں کوئی بھی ہو اسے جلدی سے بہت سارے فنڈز درکار ہوتے ہیں اور یہ فنڈز غیرملکی ادارے ہی دیتے ہیں؛ پھر چاہے جتنی بھی تعریفیں کر دی جائیں یہ قرض عوام کی بھلائی کیلئے نہیں بلکہ ایک سپائیڈر ویب ہے یعنی مکڑی کا جالہ ہے جس میں ایک بار ایک ملک پھنس جائے تو اس کے زندہ بچ نکلنے کا امکان ہی نہیں رہتا، وقت کے ساتھ ساتھ مزید دھنستا جاتا ہے اور مکڑی کی گرفت مضبوط ہوتی جاتی ہے بالکل ویسے ہی ان عالمی اداروں کی گرفت اب ہم پر مضبوط ہو چکی ہے۔

پرانے زمانے میں لوگ جنگیں لڑتے تھے، ملک فتح کرتے تھے اور وہاں کے لوگوں کو غلام اور باندی بناتے تھے لیکن اب معاملہ مختلف ہو گیا ہے؛ اب قرض دیا جاتا ہے، قرض لینے والا 5 سالہ حکومت کرنے کے بعد باہر بیٹھ جاتا ہے اور نیا آنے والا مزید قرض لے لیتا ہے، پھر وہ اپنی جیبیں بھرتا ہے اور نئے آنے والے کیلئے جگہ خالی کر دیتا ہے عوام بس انہیں تکتی رہ جاتی ہے۔

نئے دور کے نئے تقاضے اپنائے جا رہے ہیں، بلکہ کب کے اپنائے بھی جا چکے، اب کسی ملک پر حملہ کرنے کی ضروت نہیں، بس انہیں قرض دو اور اپنے سامنے باندھ دو پھر اس ملک کا سب کچھ تمہارا!

بالکل ویسے ہی ہم بھی اس نئے نئے دور کے غلام اور باندیاں ہی بن گئے ہیں جن کو بتایا تو یہی جاتا ہے کہ وہ آزاد ہیں اور انہیں تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں لیکن دراصل ہم مکڑی کے جالے میں جکڑے جا چکے ہیں۔ اور اب مکڑی کی مرضی کب وہ ہمارا کھیل تمام کر دے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button