لائف سٹائلکالم

ائیرہوسٹس: صرف جوان اور خوش شکل خاتون ہی کیوں؟

ارم رحمٰن

کچھ دن پہلے ایک خبر لاکھوں لوگوں کی توجہ اور ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی، ایک ائیرہوسٹس استنبول سے نئی دہلی جا رہی تھی، فلائٹ کے دوران جو کھانا سواریوں کو پیش کیا گیا وہ ایک مسافر کو پسند نہیں آیا، اس نے بہت شدید ردعمل دکھایا جس کے نتیجے میں خاتون ائیرہوسٹس رو پڑی اور اس کی ساتھی نے آ کر اس شخص کو خوب کھری کھری سنا ڈالیں، اور کسی منچلے نے، جو ہمیشہ ہر جگہ بہ آسانی دستیاب ہوتے ہیں، ویڈیو بنا لی اور حسب عادت حسب خواہش سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دی جو مختصر دورانیے میں وائرل ہو گئی۔

اس پورے واقعہ میں وہ مرد واقعی غلط تھا، وہ فلائٹ کے متعلقہ انچارج کو یعنی انتظامیہ کو شکایت کر سکتا تھا یا اس کمپنی کی فلائٹ سے اجتناب کر سکتا تھا، کوئی بھی مہذب مرد کسی بھی حالت میں کسی خاتون پر چیخے چلائے جبکہ وہ خاتون تو ائیرہوسٹس تھی، یقیناً وہ نہ تو کھانے کی انچارج ہو گی نہ اس نے کھانا پکایا ہو گا، اگر سروس میں کمی یا کوتاہی تھی اس کا بھی واحد حل انتظامیہ کو مطلع کرنا تھا کسی خاتون سے منہ ماری کرنا وہ بھی صرف ایک وقت کے کھانے پر بذات خود غیراخلاقی ہے۔ خیر جو ہوا کمپنی کے سی ای او نے بھی مذکورہ فضائی میزبان خاتون سے اس ناخوشگوار واقعہ کے بعد اظہار افسوس اور اظہار ہمدردی کیا۔

اس ضمن میں کئی سوال میرے ذہن میں آئے؛ کہ کیا دولت کے خمار میں لوگ انسانیت کو بھول جاتے ہیں؟ یا کیا دولت مند شخص جب چاہے جہاں چاہے کسی کی بھی توہین کرنے کا حقدار ہے؟ کیا کسی بھی مقام پر عورت کی تذلیل بہ آسانی کی جا سکتی ہے؟ کیا ہر بار سمجھوتہ غریب یا حیثیت میں کمتر کو ہی کرنا پڑتا ہے خاص طور پر عورت کو؟

ایسے کتنے مواقع اور واقعات دیکھنے میں آتے ہیں کہ جہاں ہمیشہ عورت چاہے وہ کسی بھی عہدے پر ہو، وہ عورت ہی سمجھی جاتی ہے۔ کچھ عرصے پہلے پنجاب میں ایک کمانڈو عورت کو اغوا اور بعدازاں اجتماعی آبرو ریزی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر وہیں پھینک دیا گیا جہاں سے اسے اٹھایا تھا۔ کیا ایسے واقعات سے یہ محسوس نہیں ہوتا کہ آج بھی دولت مند اور طاقتور لوگ خواتین کو چاہے وہ کتنی ہی قابل اور با صلاحیت ہوں، ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کے برعکس کہ ”وجود زن سے ہے اس کائنات میں رنگ” خواتین کا وجود ہمیشہ سے نرم دلی، دل جوئی اور مہمان نوازی کا شاہکار رہا ہے۔ اور پرائمری لیول کے سکولز میں، مختلف قسم کے کیئر سنٹرز میں بھی خواتین کو ہی مردوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔ جبکہ نرسنگ جیسے سخت محنت طلب شعبے میں بھی خواتین ہی اچھی نرس ثابت ہوتی ہیں۔

اسی طرح ایک شعبہ ہوائی میزبانی کا بھی ہے۔ دنیا کی سب سے پہلی فضائی میزبان ہونے کا اعزاز جرمنی کی Henrich (ہینرچ) کو حاصل ہے، 1912 میں انھوں نے یہ اعزاز حاصل کیا۔ اسی طرح پہلی ائیرہوسٹس ہونے کا اعزاز "ایلن چرچ” کو 1930 میں 25 سال کی عمر میں حاصل ہوا اور United Airlines نے ان کی خدمات حاصل کیں۔

انٹرنیشنل رولز کے مطابق ائیرہوسٹس کو خوش شکل، قد کم از کم 5 فٹ 4 انچ، سلم سمارٹ ہو یعنی وزن 100 سے 116 پونڈ سے زیادہ نہ ہو، مقامی زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان پر مکمل عبور ہو، اور 20 سے 26 سال کی غیرشادی شدہ خواتین ہی منتخب کی جاتی ہیں، اکثر شادی شدہ خواتین رکھی نہیں جاتیں یا شادی کا سن کر نکال دی جاتی تھیں کیونکہ بہت ممکن ہے کہ انتظامیہ نے سوچا ہو کہ فلائٹ پر ایسی خواتین نہ ہوں جو گھریلو الجھنوں کا شکار ہوں، ان پر ایسی گھریلو ذمہ داریاں ہوں کہ اپنے کام بخوبی سر انجام نہ دے سکیں اور خلل پڑے، پرکشش تنخواہ اور دیگر سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں اور یہ شعبہ کسی بھی اچھی وضع قطع خاتون کے لیے قابل رشک ثابت ہو سکتا ہے۔

وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق بے شک کچھ تںدیلیاں رونما ہوئی ہیں لیکن کچھ خاص نہیں سوائے اس کے کہ آج کل غیرشادی شدہ ہونے کی شرط کافی ائیرلائنز میں ختم کر دی گئی ہے؛ اب شادی شدہ ہونے اور پھر بچے کی پیدائش پر 6 ماہ کی چھٹیاں بھی دی جاتی ہیں تاکہ خاتون زچگی کے بعد دوبارہ اپنے وزن اور جسمانی ہیئت کو بحال کر سکے۔

ائیرہوسٹس کو دوران پرواز مسافروں کے ساتھ انتہائی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ اور بہت سی معلومات مہیا کی جاتی ہیں جیسے طبی امداد، فلائٹ میں کوئی حاملہ خاتون اگر بچہ پیدا کرے تو اس کی مدد، ہائی جیکنگ اور کیبن میں دھواں بھرنے کے وقت بچاؤ اور مسافروں کی تسلی اور دل جوئی، اپنے اوسان خطا نہ ہونے دینا اور آخری وقت تک مسافروں کی دیکھ بھال، اب اس شعبے کی افادیت پر اعتراض تو کیا کرنا لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ صرف خوش شکل اور جوان خواتین ہی کیوں؟ کوئی بڑی عمر کی خاتون کیوں نہیں، جو عام شکل و صورت کی ہو، اپنے اخلاق میں بہت عمدہ اور فضائی معلومات کے حوالے سے بھی بہت ماہر ہو سکتی ہے۔

جوان لڑکی جب 35 یا 40 سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو مزید ماہر ہو جاتی ہے لیکن اسے ریٹائر کر دیا جاتا ہے؛ کیا صرف جوان، خوبرو، اچھے قد کاٹھ کی لڑکی ہی اچھی میزبان بن سکتی ہے؟ یہ ساری شرائط جو فضائیہ نے ائیرہوسٹس کے حوالے سے رکھی ہیں صرف ایک طریقہ ہے عوام کو اپنی فلائٹ میں سفر کروانے کا کہ اس کمپنی کی فلائٹ میں ائیرہوسٹس بہت پیاری ہوتی ہیں؛ فٹ سمارٹ، جسمانی لحاظ سے پرکشش، اور دلفریب، سفر اچھا گزرے گا۔ جبکہ فلائٹ اڑانے والے پائلٹ کا ذہین اور سمجھدار ہونا ضروری ہے کیونکہ جہاز اڑانے والا بندہ ہی اچھی فلائٹ مہیا کر سکتا ہے، ائیرہوسٹس تو محض ایک سروس دینے والی خاتون ہے جو عملہ ہے، سفر کا اچھا گزرنا، خیر و عافیت اور حاضر دماغی کے ساتھ جہاز چلانے والے پائلٹ پر مبنی ہوتا ہے۔

ائیرہوسٹس کے شعبے میں صرف شکل صورت اور قد کاٹھ پر زور نہ دیا جائے بلکہ صرف قابلیت اور مہارت دیکھی جائے تو بہتر ہو گا تاکہ عام عوام میں یہ شعور آئے کہ ظاہری خوبصورتی کے چکر میں نہ پڑیں اور ہر طرح کے فضائی میزبان کو قبول کریں کیونکہ خوبصورت ہونے سے اچھی سروس دینا زیادہ ضروری ہے۔

اسی طرح خواتین بھی خوبصورتی کو ہر جگہ کیش کروانا چھوڑ دیں گی جب انہیں احساس ہو گا کہ صرف خوبرو ہونا کامیابی کی علامت نہیں دیگر خصائص بھی ضروری ہیں، اس ظرزعمل سے بھی عوام کی سوچ بدلنے میں مدد ملے گی۔

ابھی 29 ستمبر 2022 کو پی آئی اے نے بھی ائیرہوسٹس کو تنبیہہ کی ہے کہ اپنے لباس کا خاص خیال رکھا جائے؛ مناسب اور معقول لباس زیب تن کیا جائے تاکہ پاکستان کا امیج جو متاثر ہو رہا ہے، اسے بحال کیا جا سکے۔

ان تمام ائیرہوسٹس کیلئے کسی بھی ائیرپورٹ پر اترتے اور کسی بھی ہوٹل میں مقیم ہوتے وقت اپنے وطن کے تقدس کا خیال کرنا لازمی کر دیا گیا ہے تاکہ پاکستانی ائیرہوسٹس جہاں بھی جائیں پاکستان کا اسلامی ملک ہونے کا تاثر ابھرے، خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ سختی کی جائے گی۔

یہ بھی اچھا قدم اٹھایا گیا ہے کیونکہ کچھ بھی ہو ائیرہوسٹس کی بہت سی شرائط پر بے شک سمجھوتہ نہ کیا جائے لیکن ان کے ظاہری وضع قطع میں اسلامی تہذیب کا رنگ جھلکنا چاہیے۔ علاوہ ازیں فلائٹ کسی بھی ملک کی ہو ائیرہوسٹس کسی بھی مذہب کی ہو، اس سے بدتمیزی کرنے والے مسافر کی سرزنش کیلئے بھی اصول و قواعد بنانے کی ضرورت ہے۔

Erum
ارم رحمٰن بنیادی طور پر ایک شاعرہ اور کہانی نویس ہیں، مزاح بھی لکھتی ہیں۔ سیاست سے زیادہ دلچسپی نہیں تاہم سماجی مسائل سے متعلق ان کے مضامین نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ پڑوسی ملک سمیت عالمی سطح کے رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button