خیبر پختونخوا: غیرمقامی صحافیوں کا غیرملکی صحافیوں کے ساتھ کام مشکل
کائنات علی
خیبر پختونخوا میں مقامی صحافیوں کا غیرملکی صحافیوں کے ساتھ کام کرنا مشکل کام ہے۔ 2008 سے اب تک بہت سے مقامی صحافیوں کو غیرملکی صحافیوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے جان سے مارنے کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا اور صحافیوں کو زدوکوب کیا گیا۔
سوات سے تعلق رکھنے والے صحافی سہیل خان جو کہ ایک فری لانس صحافی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ایک اکتوبر 2009 میں آسٹریلیا کے ایک صحافی کے ساتھ سوات میں بطور مترجم کام کر رہا تھا، ہم ایک سٹوری کو کور کرنے گئے لیکن نقاب پوش طالبان نے ہمیں روک لیا اور نو گھنٹے تک قید میں رکھا۔
ان کا کہنا تھا کہ حراست کے دوران انہیں عسکریت پسندوں نے متنبہ کیا کہ وہ غیرملکی صحافیوں کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیں ورنہ نتائج کے لیے تیار رہیں۔
سہیل خان کا کہنا تھا جان سے مارنے کی مسلسل دھمکیوں کی وجہ سے وہ ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں مزدوری کرنے لگے اور انہیں اپنا پسندیدہ پیشہ چھوڑنا پڑا ۔
مردان سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی شاہین انور نے بتایا کہ وہ 2005 سے غیرملکی صحافیوں کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خاتون صحافی ہونا ہمیشہ ایک چیلنج ہوتا ہے لیکن جنگ کے دوران غیرملکی صحافی کے ساتھ کام کرنا خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
شاہین نے بتایا کہ سال 2010 میں وہ برطانیہ سے ایک صحافی کے ساتھ سفر کر رہی تھیں تو انہیں ڈیرہ اسماعیل خان میں عسکریت پسندوں نے یرغمال بنا لیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ صحافت کے باعث انہیں اور ان کے خاندان کو نامعلوم افراد کی طرف سے بہت سی دھمکیوں اور فون کالز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خاتون صاحافی کے مطابق ایک مرتبہ ان کے خاندان کو ایک خط کے ذریعے متنبہ کیا گیا تھا کہ آپ کی بیٹی کو غیرملکی میڈیا کے صحافیوں کے ساتھ کام کرنے سے روکا جائے۔
شاہین انور نے کہا کہ میرے اردگرد ایک خطرہ منڈلاتا رہا ہے اور میں نے کئی بار محسوس کیا ہے کہ سٹوری فائل کرنے سے مجھے نقصان پہنچ سکتا ہے۔
باجوڑ سے تعلق رکھنے والے ایک اور صحافی ارشد خان جو کہ بطور فری لانس انڈیپنڈنٹ اردو کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں لیکن طالبان دور میں بطور صحافی انہیں جس کام کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا وہ ناقابل فراموش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2008 سے 2012 تک ان کو تین مرتبہ اغوا کیا گیا اور ان کے خاندان کو بہت اذیت سے گزرنا پڑا۔
ارشد خان کے مطابق غیرملکی صحافیوں کے ساتھ کام کرنا ایک زمانے میں ایسا تھا جیسا کہ آگ کے ساتھ کھیلنا کیونکہ باجوڑ میں بدامنی اور دہشت گردی جب عروج پر تھی تو صحافی حضرات تمام دہشت گرد تنظیموں کے نشانے پر تھے۔
ارشد خان کا بتانا تھا کہ ایک صحافی کو دھمکی ملنے کا مطلب ایسے خطرے کو مول لینا ہے جو ایک صحافی کے خاندان کے لیے عمر بھر کا خطرہ ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صحافیوں خاص کر شورش زدہ علاقے میں کام کرنے والے صحافیون کو سیفٹی کی تربیت فراہم کرنی چاہیے اور ان کے لیے مخصوص قواعد و ضوابط ہونے چاہئیں۔
غیرملکی صحافیوں کے ساتھ کام کرنے والے صحافیوں کی حفاظت کی اگر بات کی جائے تو خیبر پختونخوا میں اس طرح کا کوئی نظام نہیں جس کے تحت ان صحافیوں کو سیکورٹی فراہم کی جاتی ہو اور ایسا کوئی ریکارڈ نہیں جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ اب تک کتنے صحافیوں نے ایک محسوس عرصے میں پولیس تھانے میں رپورٹ کی ہو۔
اس حوالے سے ہم نے خیبر پختونخوا پولیس سے آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت معلومات لینے کی کوشش کی لیکن پولیس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے مردان پریس کلب کے صدر مسرت خان عاصی کا کہنا تھا کہ غیرملکی صحافیوں کے ساتھ بطور معاون صحافی کام کرنا ہمیشہ سے ایک مشکل ٹاسک ہوتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صحافیوں کو اپنی زندگی کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے احتیاطی تدابیر اپنانی چاہئیں اور اس حوالے سے پریس کلب ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے، پریس کلب کو چاہیے کہ صحافیوں کو احتیاطی تدابیر کے حوالے سے تعلیم و تربیت دی جائے تاکہ صحافی اپنی زندگی کی حفاظت یقینی بناسکیں۔
انہوں نے پریس کلب کے کردار پر بات کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پریس کلب صحافیوں کے لئے ایک ماں جیسا درجہ رکھتا ہے اس لیے پریس کلب کو اپنی آئینی ذمہ داری بخوبی نبھانا چاہیے اور صحافیوں کے لئے تربیتی ورکشاپ منعقد کرنے چاہئیں۔