لائف سٹائل

سوات: مذاکرات کامیاب، احتجاج ختم، جاں بحق ڈرائیور کی نماز جنازہ ادا

سوات انتظامیہ اور دھرنا مظاہرین کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد دو روز سے جاری دھرنا ختم کر کے مقتول کی نمازِ جنازہ ادا کر دی گئی، انتظامیہ کی جانب سے ملزمان کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی گئی جبکہ مقتول کو شہدا پیکج میں شامل کر دیا گیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق علاقہ معززین کے ساتھ عارضی طور پر تحریری صورت میں معاہدہ کیا گیا ہے جس کے مطابق مقتول کے بچوں کی کفالت کا ذمہ سوات انتظامیہ نے اٹھایا ہے۔

خیال رہے کہ سوات کے علاقے چار باغ میں گزشتہ روز فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے سکول وین ڈرائیور کے اہل خانہ نے لاش کے ہمراہ کالام مینگورہ روڈ پر دھرنا دے رکھا تھا۔

مظاہرین سے مذاکرات کے لیے ایس پی اپر سوات ساجد، ڈی ایس پی اعجاز خان اور اے سی چارباغ شاکر اللہ پر مشتمل ٹیم تشکیل دی گئی تھی تاہم وہ مظاہرین کو کارروائی کی یقین دہانی نہ کرا سکی  جن کا کہنا تھا کہ ملزمان کی گرفتاری تک لاش سڑک پر رکھ کر دھرنا جاری رکھا جائے گا۔

جاں بحق ہونے والے ڈرائیور کی شناخت حسین احمد ولد عنایت اللہ کے نام سے ہوئی ہے، جبکہ واقعہ میں سوات پبلک سکول کے دو طالبعلم اظہر حسین ولد جان بخت سکنہ دیر اور مامون ولد صفی اللہ سکنہ چترال زخمی ہوئے تھے۔

گزشتہ روز سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سمیت چار باغ اور خوازہ خیلہ میں پرائیویٹ سکول مینجمنٹ ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) کے زیرقیادت احتجاج کرتے ہوئے مشتعل مظاہرین کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ جب تک قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا جاتا اس وقت تک احتجاج جاری رہے گا، ”ہم امن چاہتے ہیں، حکومت ہمیں امن و امان اور تحفظ فراہم کرے۔” اس دوران مظاہرین نے چارباغ اور خوازہ خیلہ تحصیلوں میں سڑکیں بلاک کر دیں تھیں۔

مقامی لوگوں نے اس حملے کا الزام کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پر عائد کیا تاہم گروپ نے ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا جبکہ کسی اور تنظیم نے بھی حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

دوسری جانب سوات اولسی پاسون کے زیر اہتمام نشاط چوک میں احتجاج کی کال دی گئی تھی جس میں شرکت کیلئے اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان اور سردار حسین بابک سمیت سینیٹر مشتاق احمد خان اور منظور پشتین بھی سوات پہنچ چکے ہیں۔

مظاہرے کے شرکاء نے امن کے حق میں اور دہشت گردی کے خلاف نعرے بازی کی اور سوات سمیت پورے خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔ پی ایس ایم اے کی کال پر آج ضلع بھر میں سکول بھی بند رکھے گئے تھے۔

واضح رہے کہ اس حملے سے 9 اکتوبر 2012 کو ہونے والے حملے کی یاد تازہ کر دی ہے جب نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کی گاڑی پر تحریک طالبان کی جانب سے حملہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہو گئی تھیں۔

یہ بھی خیال رہے کہ سوات میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے، گزشتہ ہفتے حکومتی اور اپوزیش سینیٹرز نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافے پر خطرے سے خبردار کیا تھا جب کہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے وزارت داخلہ کی جانب سے کالعدم تنظیم کے حملوں سے متعلق حالیہ تھریٹ الرٹ کے بارے میں بریفنگ کا مطالبہ کیا تھا۔

وزارت داخلہ نے حال ہی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات منقطع ہونے کے بعد گروپ یا اس کے دھڑوں کی جانب سے دہشت گرد حملوں کے بڑھتے ہوئے خطرے پر الرٹ جاری کیا تھا۔

گزشتہ ماہ سوات کے ملحقہ پہاڑوں پر عسکریت پسندوں کی مبینہ موجودگی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے پورے سوات میں بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکلے تھے جنہوں نے واضح کیا تھا کہ وہ کسی بھی گروہ یا دہشت گرد کو علاقے میں قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا امن سبوتاژ نہیں کرنے دیں گے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button