قصہ ایک طلاق یافتہ عورت کا!
نوشین فاطمہ
فیس بک پرایک پی۔ ایچ ۔ڈی اسکالر کے ساتھ کسی معاملے پرگفتگو کررہی تھی جو گرما گرم بحث میں تبدیل ہوگئی۔
گفتگو زور و شور سے جاری تھی کہ انہوں نے اچانک انتہائی ذاتی نوعیت کا مکالمہ(اسے حملہ سمجھئیے) شروع کیا:
اسکالر صاحب: کیا آپ شادی شدہ ہیں؟
میں:جی خلع لے لی تھی۔
اسکالر صاحب (حیرت میں لپٹا اگلا سوال): کیا مطلبب؟
میں: جی، علیحدگی ہو گئی ہے۔
اسکالر صاحب :اوہ تو آپ طلاق یافتہ ہیں۔ تبھی کہوں۔۔۔۔ اتنی بحث کی عادت والی عورتوں کو طلاق نہیں ہوگی تو اور کیا ہوگا ان کے ساتھ!!!
اب بتائیے ایسی واہیات اور فرسودہ ذہنیت کے مالکان کے ساتھ کیا ہونا چاہیئے؟
جی ،آپ بالکل صحیح سمجھے کہ انہیں بلاک کر دیا جس میں صرف ایک سیکنڈ لگا۔
لیکن دماغ نے اچانک بیس سال پہلے کا رخت سفر باندھ لیا۔
یہ بیس سال پہلے کی بات ہے کہ میری خالہ کے انتقال کے فورا بعد ہی ان کے شوہر کیلئے دوسری بیوی کی ڈھنڈ یا شروع ہوئی۔
خالوکا اصرار تھا کہ خاتون بھلے بیوہ ہو، بڑی عمر کی ہو، زیادہ پیسے والی بھی نہ ہو مگر بس طلاق یافتہ نہ ہو۔ ان کا ماننا تھا کہ بیوگی قدرتی امر یا آفت ہے جس میں عورت بے قصور ہوتی ہے مگر طلاق کے بارے میں توان کے انوکھے ہی قسم کے خیالا ت تھے۔ کہتے کہ طلاق تو عورت کی وجہ سے ہی ہوتی ہے اور سراسر عورت کا قصور ہوتا ہے جو گھر بچانے کے بجائے طلاق کو ترجیح دیتی ہے جبکہ ہم سب کو معلوم ہے کہ پدرشاہی معاشروں میں طلاق مرد دے سکتا ہے ، عورت نہیں۔
ویسے دیسی مردوں کے زیادہ تر انوکھے خیالات عورت مخالف اورپدرشاہی کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔ خالو بھی اپنے نادر یعنی فرسودہ خیالات سے دوسروں کے ذہن آلودہ کرتے رہتے۔
آج بیس برس بعد بھی ایک( نام نہاد) انتہائی پڑھے لکھے شخص کی میرے خالو جیسی سوچ نے پھر سے میرے ذہن کے وہ دریچے وا کر دیے جنہیں میں بند کر چکی تھی۔ بھلا کیا فائدہ ایسی تعلیم کا جو بند ذہنوں کو نہ کھول سکے۔
خلع اور طلاق میں فرق
اللّٰہ جانے ہرچیزمیں تفرقہ ڈھونڈنے والی یہ قوم آج تک خلع اور طلاق میں فرق کیوں نہیں سمجھ سکی یا شاید جان بوجھ کر سمجھنا نہیں چاہتی۔ سمجھ گئی تو نبھانے کا جو بوجھ صرف عورت کے کاندھے پر لادا ہوا ہے وہ مرد کو بھی اٹھانا پڑے۔
اپنے ذہن کے جن بند دریچوں کی بات میں نے پہلے کی وہ میرا اپنے سابقہ شوہر سے خلع لینا تھا۔
مجھ سے پہلے میرے خاندان کی کئی خواتین خلع سے فائدہ اٹھا چکی ہیں۔ میری باری پر والدہ کو تشویش ہوئی کہ لوگ اس خاندان کی خواتین میں ہی عیب ڈھونڈیں گے کہ انہیں مسلسل طلاق ہو رہی ہے۔ میں نے تاسف سے پوچھا کہ اس رشتے میں دو فریق ہوتے ہیں نا یعنی مرد اور عورت ، دونوں کا کام ذمہ داری سے رشتہ نبھانا ہے نا تو پھر نبھا کی زمہ داری صرف عورت پر کیوں ڈالی جارہی ہے؟
پاکستان میں تو یوں بھی خلع اور طلاق کا فرق قانونی اور فقہی الجھنوں سے گھرا ہوا ہے۔
مگر عمومی طور پر شوہر کا بیوی کو چھوڑنا طلاق کہلاتا ہے۔ طلاق کے کچھ مخصوص الفاظ ہوتے ہیں جنہیں شوہر ہی زبانی ادا کرسکتا ہے جس سے نکاح ختم سمجھا جا ئے گا، گویا طلاق صرف شوہر کے اختیار و رضامندی سے ہی ہوتی ہے! طلاق کسی دستاویز کی غیرموجودگی میں بھی ہوسکتی ہے۔
جبکہ خلع یہ ہے کہ بیوی مالی معاوضے یا حق مہر کی دستبرداری کے بعد ہی علیحدگی اختیار کر سکتی ہے جس کے لئے قانونی دستاویزات ضروری ہیں۔
طلاق کے بعد
اگر ایک جوڑا اپنے رشتے سے خوش نہیں ہے اور الگ ہو کر ایک پر سکون زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو یہ ان کاسب سے پہلے انسانی، پھر قانونی اور شرعی حق ہے۔
بس اگر یہ حق کسی سے ہضم نہیں ہوتا تو وہ آپ کا ڈرامے باز معاشرہ ہے، جو مرد کو اکساتا ہے اور عورت کے تو ہاتھ دھو کر پیچھے ہی پڑ جاتا ہے۔ علیحدگی کے بعد اس کا خاندان دو نمبر کہلاتا ہے جبکہ کردار ،اخلاق اور برتاؤ سب ہی مشکوک سمجھا جاتا ہے۔
طلاق دیتا بھی مرد ہی ہے مگرخود تو آرام سے دوسری شادی کر لیتا ہے جبکہ طلاق کا تمغہ سجانے کے بعد سابقہ بیوی کو جیسے کسی کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے جہاں معاشرے کو صفائی دیتے دیتے گویا اس کی زندگی تمام ہو جاتی ہے مگر سوالات و شبہات ختم نہیں ہوتے۔
میں بے چاری نہیں ہوں
بے چاری دراصل وہ لفظ ہے جس کا استعمال خواتین کے لئے موقعے کی مناسبت سے مگر ہر وقت کیا جا تا ہے۔ اگر کسی کی مدد کی تو بھی بے چاری کتنی اچھی ہے ، نہیں کی تو بھی بے چاری اس قابل نہیں تھی، نوکری مل جائے تو بے چاری کیا کرے نوکری کی ضرورت تھی، نہ کرے تو بے چاری کو نوکری نہیں مل رہی، شادی ہوجائے تو بھی بے چاری نہ ہو تو بھی بے چاری وغیرہ وغیرہ۔
میں نے جب اپنے سابقہ شوہر سے خلع لی تو خاندان والوں نے میرا ناطقہ بند کر دیا۔ کوئی کہتا میں نے پیسوں کے لالچ میں شوہر کو چھوڑا تو کسی نے میرا نیا بوائے فرینڈ بھی تلاش کر لیا،کسی نے میرے لئے آزاد عورت طعنے کے طوراستعمال کیا تو کسی نے شوہر کی خدمت میں عظمت کو نہ ماننے کا قصور وار ٹہرایا۔ کچھ تو سمجھے میں بھاگ گئی۔ مگر ایک لفظ سب مشترکہ طور پر استمال کرتے اور وہ تھا بے چاری۔
رشتے دار کہتے کہ بیچاری بے گھر ہوگئی۔ ہائے گھر تو کسی چڑیا کا بھی نہ ٹوٹے، کیسی خوبصورت جوڑی تھی جانے کس کی نظر لگ گئی بے چاری کو۔
یہ جاننے کے باوجود کہ میں بھاگنے والوں میں سے نہیں بلکہ بہادری سے ڈٹ کر مقابلہ کرنے والوں میں سے ہوں، مجھے یوں لگنے لگا جیسے واقعی زندگی ختم ہوگئی ہو۔ میں اس کے بعد شاید ہی کچھ کر سکوں۔
عمر کا طعنہ دینے والوں کو بتایا کہ شادی کے چودہ سال گزارنے کے بعد اگر اٹھاتیس سال کی عمر میں مجھے لوگ یہ مشورہ دیں کہ عمر گزر گئی ہے، تھوڑی رہتی ہے توان کے لیے عرض ہے کہ ذہنی اذیت سے آزاد ایک لمحہ بھی ایک مکمل اور خوبصورت زندگی ہے۔
میں بے چاری نہیں ہوں! خواتین کو جیتے جاگتے انسان کی حیثیت سےدیکھیں۔ میں زندگی کے قدم سے قدم ملا کر چلنے والی خاتون ہوں۔ شادی ایک رشتہ تھا جس میں جب تک خوش تھی اسے نبھایا، جب ساتھ رہنا ناگزیر ہوا تو چھوڑ دیا۔
طلاق نہیں ہونی چایئے مگرمعاشرے کی خود ساختہ فرسودہ روایات کو نبھانے کی خاطر دو انسان ناخوش رہیں، ڈپریشن کا شکار ہو جائیں، خلع لینے والی یا طلاق ملنے والی خاتون پوری زندگی طعنوں اور خود کو اس معاشرے کی نظر میں صحیح ثابت کرنے کی کوشش میں اپنی بنیادی انسانی حقوق سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کئی مرتبہ تو جان سے بھی گزر جاتی ہے، تو میں ایسا بھی بالکل نہیں چاہتی۔
کیا طلاق اورخلع لینے سے عورت کی انفرادیت ختم ہو جاتی ہے؟ کیا عورت صرف مرد کی نسبت سے ہی ہے؟
نوشین فاطمہ ایک سماجی کارکن اور بلاگر ہیں۔