”دال چاول کے دو دو پیکٹ دے کر حکومت نے ہمارا مذاق اڑایا ہے”
حضرت علی عطار
بلوچستان میں طوفانی بارشوں سے اب تک 127 افراد جاں بحق اور اس سے دگنی تعداد میں لوگ زخمی ہو گئے، اٹھارہ ڈیموں کے پھٹنے سے کھڑی فصلوں اور باغات کو شدید نقصان پہنچا جبکہ صوبے میں 6577 گھر مکمل طور پر اور 10 سے زائد جزوی طور پر تباہ ہو گئے۔
بلوچستان میں مون سون کے طوفانی بارشوں نے 29 اضلاع کو متاثر کیا ہے، صوبے کا ملک بھر سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے، اندرون بلوچستان شہروں کو ملانے والی سڑکیں بہہ گئیں، سات دن گزرنے کے باوجود سیکڑوں کی تعداد میں لوگ پانی میں پھنسے ہوئے جبکہ ہزاروں خاندان کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور ہو گئے، متعدد اضلاع میں پاک فوج اور ایف سی کے اہلکار امدادی سرگرمیوں میں سول انتظامیہ کی مدد کر رہے ہیں۔
بلوچستان میں قدرتی آفات کے دوران کام کرنے والے ادارے پی ڈی ایم اے حکام کا کہنا تھا کہ اتھارٹی صوبے کے تمام متاثرہ اضلاع میں امدادی کارروائیوں کے علاوہ 9000 ہزار ٹینٹ، 7000 ہزار کمبل، 700 سو سے زائد سیولر لائٹ، 7000 ہزار مچھر دانیاں اور 13000 ہزار فوڈ پیکٹ فراہم کر چکی ہے۔
ضلع لسبیلہ کی تصیل اوتھل میں سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی اور پوری تحصیل پانی میں ڈوب گئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر ضلع لسبیلہ افتخار بگٹی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج اور سول انتظامیہ مشکل کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ کھڑی ہیں، متاثرین کی بحالی تک انہیں تنہا نہیں چھوڑا جائے گا، متاثرین کی امداد اور بحالی کیلئے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لا رہے ہیں، جن علاقوں میں زمینی رابطہ بحال ہوا ہے وہاں ایف سی کی معاونت سے ضلعی انتظامیہ نے سیلاب متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان کی ترسیل شروع کر دی ہے، کچھ ایریاز میں رسائی کے بعد راشن کے 179 تھیلے، تحصیل لاکھڑا میں ایف سی کے ذریعے 130 تھیلے، تحصیل دریجی کے سیلاب زدگان میں ایف سی کے ذریعے 180 تھیلے جبکہ تحصیل بیلہ کے بے گھر متاثرین میں ایف سی کی زیر نگرانی 100 بیگ تقسیم کیے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ سکھن کے سیلاب متاثرہ خاندانوں میں 35 تھیلے ایف سی کے ذریعے تقسیم کیے گئے، تمام متاثرہ یونین کونسلوں میں شفاف اور غیرجانبدارانہ طریقے سے امدادی سرگرمیاں پاک فوج، پولیس، لیویز، پی ڈی ایم اے اور رضاکار تنظیموں کی معاونت سے جاری ہیں جبکہ ضلعی انتظامیہ کی معاونت کیلئے ایدھی بلوچستان کے انچارج ڈاکٹر عبدالحکیم لاسی اور لسبیلہ ویلفیئر ٹرسٹ رمضان جاموٹ رضاکاروں سمیت ریسکیو آپریشن میں اول دن سے شریک ہیں، اوتھل میں پاک آرمی، نیوی، پاکستان ائیر فورس کے ہیلی کاپٹروں میں کھانے پینے کی اشیاء لوڈ کر کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پہنچانے کا کام بھی شروع کر دیا گیا ہے، ایک ہیلی کاپٹر سیلاب میں پھنسے ہوئے افراد کو ریسکیو اور دیگر تین ہیلی کاپٹرز ریلیف آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں، تحصیل لیاری کے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو کیلئے ایک ہیلی کاپٹر مقامی علاقائی رضاکاروں کی گائیڈ لائن پر روانہ کر دیا گیا ہے۔
افتخار بگٹی نے بعض عناصر سوشل میڈیا پر ریلیف آپریشن سے متعلق پراپیگنڈے اور منفی تاثر کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اوتھل کے مختلف سیلاب ذدہ علاقوں سے ریسکیو گئے گئے پانچ سو سے زائد بے گھر خاندانوں کو شیلٹر فراہم کر دیا گیا ہے اور انتظامیہ متاثرین کو تین ٹائم کھانا اور ہیلتھ کی سہولیات بھی فراہم کر رہی ہے۔
تحصیل اوتھل گوٹھ نمبر 3 جاموٹ کے رہائشی اللہ وسایا نے ٹی این این کو بتایا کہ حکومت بلوچستان نے ضلع لسبیلہ کو آفت زدہ قرار دینے کے باوجود وہ اقدامات نہیں اٹھائے جو اٹھانے چاہئیں، ہمارا پورا علاقہ پانی میں ڈوبا ہوا اور قیامت صغرا ہے، ہر طرف چیخ و پکار ہے، خدشہ ہے کہ لوگ اب بھوک سے نہ مر جائیں کیونکہ متاثرین کو راشن بروقت نہیں پہنچایا جا رہا، اب بھی ایسے علاقے ہیں جہاں ایک کلو راشن نہیں دیا گیا اور جو سامان دے رہے ہیں وہ انتہائی کم اور نہ ہونے کے برابر ہے، جس کو ٹینٹ کی ضرورت ہے وہاں وہ راشن دیتے ہیں اب بھی لوگ کھلے میدانوں میں میں دن رات گزار رہے ہیں، کل صبح ایک ادمی کو سانپ نے ڈسا، علاقہ مکین اپنی مدد اپ کے تحت چارپائی کے زریعے پیدل دس کلومیٹر سفر طے کر کے مکران کوسٹل ہائی وئے روڈ تک لائے، راستہ بند ہونے کی وجہ سے دو گھنٹے گاڑی کے لیے انتظار کیا لیکن گاڑی نہ مل سکی، لاگھڑا کے رہائشی شریف امین انگاریہ نے اپنا رکشہ دے کر ان کو ضلعی ہسپتال کے لیے روانہ کر دیا، حکومت بلوچستان سے مطالبہ ہے کہ خدارا ہمارے حال پر رحم کرو ہمیں جلد از جلد فری میڈئیکل کیمپ، شیلٹر اور راشن مہیا کیا جائے، اگر بروقت امداد اور راشن ہمارے علاقوں تک نہ پہنچایا گیا تو ایک بڑا انسانی المیہ رونما ہو سکتا ہے۔
ضلع قلعہ عبداللہ تحصیل دوبندی کے دورافتادہ علاقہ توبہ اچگزئی میں حالیہ مون سون کی طوفانی بارشوں سے 9 ڈیم ٹوٹ گئے جس کی وجہ سے کھڑی فصلوں، سیب کے باغات اور 150 گھر مکمل طر پر اور 200 کے قریب گھر جزوی طور پر تباہ ہوئے جبکہ متاثرہ خاندان 6 دن تک بے سروسامانی کی حالت میں کھلے آسمان تلے پہاڑوں میں دن رات گزار رہے تھے ٹی این این کی رپورٹ پر ضلعی انتظامیہ حرکت میں آ گئی، علاقے کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندانوں میں ٹینٹ، کمبل اور راشن تقسیم کئے۔
توبہ اچگزئی کلی گوال غبیزئی کے رہائشی شمس اللہ نے ٹی این این کو بتایا کہ ہم قبائل ہیں، میرا ایک گھر ہے جس میں 35 افراد پر مشتمل ایک خاندان رہتا ہے، انتظامیہ نے حکومت بلوچستان کی جانب سے دی گئیں امدادی اشیاء فی گھرانہ دو دو کلو دال، ایک کلو چاول، ایک کلو گھی کا پیکٹ اور ایک ٹینٹ دیا، یہ سامان ایک فرد کے لیے بھی ناکافی ہے جبکہ ہمارا 35 افراد پر مشتمل خاندان ہے۔
شمس نے بتایا کہ علاقے میں اس طرح کے اور بھی خاندان ہیں جو چالیس یا پچاس افراد پر مشتمل ہیں ہم نے سمجھا کہ حکومت ہمارے زخموں پر مراہم پٹی رکھے گی لیکن اس نے ہمارا مذاق اڑیا اور ہمیں لائنوں میں کھڑا کر کے دو دو کلو چاول اور دال کے پیکٹ دیئے گئے، جب سامان ملا تو میں نے اپنے خاندان کے لیے ناکافی سمجھا اور علاقے کے ایک غریب شخص محمد علی کو دے دیا، حکومت بلوچستان سے ہمارا مطالبہ ہے توبہ اچکزئی کو آفت زدہ قرار دے کر امدادی پیکج کا اعلان کرے۔
انہوں نے حکومت بلوچستان سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ کرپشن زدہ ڈیموں میں ناقص میٹریل استعمال کرنے والوں کے خلاف انکوائری کمیٹی تشکیل دی جائے، اب بھی متعدد ڈیموں کے ٹوٹنے کا خطرہ ہے اور لوگ خوف زدہ ہیں، لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بحالی کے کاموں میں مصروف ہیں اور حکام صرف فوٹو سیشن تک محدود ہیں، حکومت بلوچستان سے ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمیں دو دو کلو راشن نہیں ہمارے نقصانات کا ازالہ کرے، اس سے پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے سیلاب اور بارشوں سے متاثرہ علاقوں کا فضائی دورہ کیا اور اعلان کیا کہ مرنے والوں کو دس لاکھ اور جن کا گھر کچا ہو یا پکا مکمل طور پر تباہ ہوا ہے انہیں پانچ لاکھ اور جن کے گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے ان کو دو لاکھ روپے فراہم کئے جائیں گے، انہوں نے نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے چیئر پرسن کو بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں اہلکاروں کی تعداد بڑھانے کا حکم دیا اور نیشنل ڈئزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے قائم مقام سربراہ کو فوری طور پر کوئٹہ پہنچنے اور سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے صوبائی حکومت کا ساتھ دینے کا حکم دیا۔