عید قربان: جانوروں کی خریداری اور کانگو کی بیماری
ناہید جہانگیر
بکرا عید کو چند دن باقی رہ گئے ہیں، ایک طرف لوگ قربانی کے جانوروں کی خریداری میں مصروف ہیں تو دوسری طرف جانوروں میں بیماری کی وجہ سے فکرمند ہیں کہ کہیں بیمار جانور خرید نا لیں۔
خیبر پختونخوا کے لایئوسٹاک کے مطابق ابھی تک ڈیڑھ لاکھ جانوروں کی ویکسینشن کی گئی ہے، 5 ہزار تک مر چکے ہیں جبکہ 8 لاکھ تک جانور متاثرہ ہیں۔
لائیو سٹاک کے ماہر ڈاکٹر امین خان نے جانوروں میں کانگو وائرس کے حوالے سے بتایا کہ جانوروں میں لمپی سکن بیماری کے ساتھ ساتھ کانگو وائرس کی بیماری بھی بڑھ رہی ہے، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ بڑی عید پر مویشی منڈیوں کے علاوہ جگہ جگہ جانوروں کی نقل و حمل میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
کانگو وائرس کی بیماری کوئی نیا مرض نہیں ہے بلکہ گذشتہ 20 سالوں سے پاکستان میں موجود ہے۔ کانگو وائرس جانوروں کی بیماری ہے لیکن یہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہو جاتی ہے اور پھر انسان سے انسان میں منتقل ہوتی ہے، یہ بیماری نا صرف جانوروں کے لیے بلکہ انسانوں کے لئے بھی خطرناک ہو سکتی ہے۔
کانگو وائرس سے متاثرہ جانور کا گوشت استعمال کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر امین نے بتایا کہ یہ جانور کے کلینیکل ٹیسٹ پر منحصر ہے کہ جانور کس حد تک متاثرہ ہے، اگر کوئی عام بیماری ہے تو بالکل گوشت استعمال کیا جا سکتا ہے لمپی سکن بیماری ہے تو گوشت پہلے ٹھیک طرح سے ابال کر کھایا جا سکتا ہے لیکن اگر کانگو وائرس سے متاثرہ ہے تو گوشت نقصان دہ ہے اور بالکل بھی استعمال نا کریں۔
دوسری جانب لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے پروفیسر عطا محمد خان نے کانگو وائرس کے حوالے سے بتایا کہ کانگو وائرس ایک متعدی بیماری ہے جو نیرو وائرس کی وجہ سے پھیلتی ہے، یہ وائرس ایک جانور سے دوسرے اور ایک انسان سے دوسرے انسان تک پھیل سکتا ہے۔
کانگو وائرس مختلف جانوروں میں پایا جاتا ہے۔ پھیلنے کی اہم وجہ ایک قسم کے کیڑے ہوتے ہیں جو جانوروں کے جسم کے ساتھ چمٹے ہوتے ہیں، ان کے کاٹنے سے جانور کو خود اور انسان کو بھی بیماری لگ سکتی ہے۔ یہ کیڑے گائے بھینس بکری یعنی تمام پالتو جانوروں کے جسموں پر پائے جاتے ہیں۔ اور جب بھی ان متاثرہ جانور کے فضلے، خون، تھوک یا جسم کے دوسرے حصوں کو چھوا جائے تو اس سے انسان میں منتقل ہو جاتا ہے۔
اسی طرح متاثرہ انسان کے خون، چھوٹے بڑے پیشاب تھوک وغیرہ سے کانگو وائرس منتقل ہو سکتا ہے۔
پروفیسر عطا محمد خان نے اس بیماری کی عام علامات کے حوالے سے بتایا کہ سر، بدن، گردن میں شدید درد، پیٹ خراب ہونا، زکام، آنکھوں میں سوجن ہو سکتی ہے، متلی کی شکایت ہو سکتی ہے، جسم پر دھبے پڑ جاتے ہیں، جگر بڑھ سکتا ہے اور جسم پر معتدد غدود پڑ جانے کی شکایت ہو سکتی ہے کانگو ایک خطرناک بیماری ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لئے بچاو بہت ہی ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک کانگو وائرس کے علاج کا تعلق ہے تو ابھی تک کوئی ویکسین دریافت نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے انسان یا جانور اس بیماری سے بچا جا سکے، اگر کوئی حصہ متاثر ہو جائے تو اس کا ہی علاج کیا جاتا ہے جیسے اگر بخار ہو تو اس کا علاج یا پیٹ خراب ہو تو اس کا علاج کیا جاتا ہے، اگر خون پتلا ہو جائے تو مختلف پلیٹ لیس یعنی خون کے اجزا لگائے جاتے ہیں یا اینٹی وائرس بھی لگایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عطا محمد خان نے کہا بچاو بہت ضروری ہے جب بھی مویشی منڈی جانا ہو یا جانور کی دیکھ بھال کرنی ہو تو لانگ شوز پہنیں، منہ کو ڈھانپ اور ہاتھوں کو کور کریں جبکہ کانگوا وائرس کے خطرے کو کم کرنے کے لئے جانوروں پر سپرے کیا جا سکتا ہے۔