لائف سٹائل

کیپرا: اداروں اور خدمات فراہم کرنے والے افراد کو کیسے جواب دہ بنایا جاتا ہے؟

خیبر پختونخوا ریونیو اتھارٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ ٹٰیکس نظام کو درست رکھنے کیلئے سروسز پروائڈرز اور دیگر اداروں کو قانون کے مطابق قابل احتساب بنایا جاتا ہے اور اگر کوئی ادارہ یا سروس پروائڈرز ٹیکس نہیں دیتے تو ان کو سزا دی جاتی ہے لیکن اداروں اور خدمات فراہم کرنے والے افراد کو کیسے جواب دہ بنایا جاتا ہے؟

اس حوالے سے کیپرا کی جانب سے یو ایس ایڈ کے تعاون سے جاری آگاہی مہم کے دوران کیپرا کے ڈپٹی کلکٹر اعجاز علی خان کا کہنا تھا کہ کیپرا کے ساتھ قانون کے مطابق مکمل اختیارات موجود ہیں کہ وہ ہر ادارے اور ہر قسم کی خدمات فراہم کرنے والے افراد کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرے۔

انہوں نے کہا کہ احتساب کیلئے دو قسم کے نظام موجود ہوتے ہیں؛ ایک ادارے کے اندر اپنے عملے کی پرفارمنس چیک کی جاتی ہے اور دوسرا ادارے سے باہر خدمات فراہم کرنے والے افراد کی، جس میں سیلز ٹیکس سروسز کی مد میں ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔

اعجاز علی خان نے کہا کہ اندرونی سطح پر ایکٹ کے مطابق تحقیقاتی کمیشن ڈائریکٹوریٹ آف انوسٹی گیشن آف انکوائری ہے جو عملے کی کارکردگی پر نظر رکھتی ہے اور اسی کے ذریعے جزا اور سزا کا عمل ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بیرونی سطح پر ٹیکس وصولی کیلئے ادارہ اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ کس نے کتنا اور کب ٹیکس جمع کیا، ان کے کاروبار کا حجم کیا ہے وغیرہ اور اس بات کا جائزہ روزانہ کی بنیاد پر لیا جاتا ہے اور پھر ہر تین ماہ اس کی سہ ماہی رپورٹ تیار کی جاتی ہے۔

ڈپٹی کلیکٹر نے کہا "ٹیکس ایک یونیورس ریسورس آف انکم ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب صرف پیسوں کی وصولی نہیں بلکہ معیشت کو ڈاکومنٹ کرنا ہوتا ہے۔”

نیٹ ٹیکس میں شامل ہونے والے افراد جب رجسٹرڈ ہو جاتے ہیں تو انہیں ایک کوڈ اور پاسورڈ فراہم کیا جاتا ہے جس کے ذریعے وہ خود آن لائن طریقے سے اپنے ٹیکس ریٹرنز جمع کرا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی فرد یا ادارہ ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کراتا تو ہم انہیں ٹیلیفون کالز یا ایمیل کے ذریعے یاد کراتے ہیں، اگر پھر بھی وہ اپنے گوشوارے جمع نہ کرائے یا مزاحمت کرتا ہو تو ہم اس کے خلاف قانونی کاروائی کرتے ہیں۔

اعجاز احمد نے سزاؤں پر بات کرتے ہوئے کہ کیپرا کے پاس قانون کے تحت اختیار موجود ہے کہ وہ کسی کا کاروبار سیل کرے، لائسنس ضبط کرے یا ڈیٹا طلب کرے لیکن ‘الحمدللہ’ اب تک ایسی کوئی شکایت ہمیں سروسز پروائڈر کی جانب سے موصول نہیں ہوئی جس پر ہم ان کے خلاف کاروائی کریں۔

انہوں نے کچی اور پکی رسیدوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ گاہک کو علم ہونا چاہئے کہ کچی رسیدیں وہ ہوتی ہیں جو ہاتھ سے لکھی گئی ہوں اور پکی رسیدیں کمپیوٹرازڈ ہوتی ہیں جو ریمز کے ذریعے نکلتی ہیں اور اس پر ایک این ٹی این نمبر لکھا ہوتا ہے جو اصلی ہوتا ہے اور اسی کے ذریعے موصول ہونے والا ٹیکس ادارے میں براہ راست جمع ہوتا ہے۔

اعجاز نے عوام سے اپیل کی کہ اگر کوئی ہوٹل والا یا دیگر افراد آپ کو کچی رسید فراہم کریں تو بلاخوف و خطر کیپرا کے پاس اپنی شکایت درج کریں جس پر ہم ان کے خلاف کاروائی کریں گے اور شکایت کیلئے واٹس ایپ نمبر 03331421423 موجود ہیں۔

انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے ٹیکس وصولی میں امیروں اور غریبوں کی آمدن کا خاص خیال رکھا ہے اور یہ کہ جب کوئی ہائی فائی ہوٹل یا فائیوسٹار ہوٹلز وغیرہ میں خدمات سے مستفید ہوتے ہیں تو ہمیں پتہ ہے کہ وہ لوگ زیادہ ٹیکس افورڈ کر سکتے ہیں جس پر ہم نے پندرہ فیصد جبکہ ڈھابے پر چائے پینے والے یا کھانے والے سے صرف دو فیصد ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔

اعجاز احمد نے کہا "دو فیصد کا مطلب ہے کہ جب آپ سو روپے کسی ڈھابے یا عام ہوٹل میں خرچ کرتے ہیں تو آپ سے صرف دو روپے اضافی لئے جائیں گے اور یہی رقم سرکاری خزانے میں جمع ہوتی ہے جو صوبے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔”

انہوں نے کہا کہ ریسٹورنٹ پر ٹیکس وصولی ریمز ہی کے ذریعے ممکن ہوتی ہے جس کے نتائج بہترین آ رہے ہیں اور کیپرا کوشش کرتی ہے کہ اگلے دو سال میں بیوٹی سیلونز میں یہی نظام متعارف کروائے تاکہ وہاں پر بھی لوگوں کو ٹیکس دینے میں شفافیت کا سامنا ہو۔

اعجاز احمد کے مطابق صوبے کی ترقی میں کیپرا بہترین کردار ادا کر رہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر سال ورلڈ بینک ادارے کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ لے رہا ہے جس میں گزشتہ تین سالوں سے ادارے کی اوسطاً کارکردگی 97 فیصد رہی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button