لائف سٹائل

چرچل پل: برے وقتوں میں جو لوگوں کے بہت کام آتا ہے

گل حماد فاروقی

چترال جاتے ہوئے دریائے سوات کے اوپر چکدرہ کے مقام پر لوہے کا ایک پل بنا ہوا ہے جسے چرچل پُل بھی کہا جاتا ہے۔ 1903 میں بنا ہوا یہ پُل برے وقتوں میں اس علاقے کے لوگوں کے بہت کام آتا ہے۔ سٹیل سے بنے اس پل کی ایک تاریحی اہمیت بھی ہے۔

1901 میں رچرڈسن اینڈ کریڈرز بمبی سٹیل ملز سے اس کا سامان ریل کے ذریعے درگئی اسٹیشن تک لایا گیا۔ اس کے بعد خچروں اور گدھوں کے زریعے اس سامان کو چکدرہ تک پہنچایا گیا، ستمبر 1901 میں اس پر کام کا آغاز اور مارچ 1903 کو یہ پل ہر قسم ٹریفک کیلئے مکمل طور پر تیار ہوا۔ اس کے افتتاح کیلئے اس وقت کے صوبہ سرحد کے چیف کمشنر سر آرتھر ہیرالڈ کو بلایا گیا۔ اس زمانے میں اس پل پر کل 444000 ہندوستانی روپے لاگت آئی۔ اس کے ساتھ ایک قلعہ بھی ہے جس میں چترال سکاؤٹس کی ایک ونگ مقیم ہے۔ اس قلعہ کو پہلی بار مغل حکمرانوں نے 1586 میں تعمیر کیا تھا جسے 1850 میں برطانوی حکومت نے ازسرنو تعمیر کیا۔

سال 2010 میں جب تباہ کن سیلاب آیا تھا تو اسی دریا پر 1987 کا بنا ہوا ایک آر سی سی پل سیلاب کی وجہ سے تباہ ہوا مگر 1903 میں بنا یہ پل اپنی جگہ کھڑا تھا کیونکہ اسے انگریزوں نے بنایا تھا۔ ضلع لوئر دیر، اپر دیر اور چترال کا ملک کے دیگر حصوں سے مکمل طور پر رابطہ منقطع ہو چکا تھا مگر یہ پل ان چار اضلاع کے لوگوں کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے کا واحد ذریعہ تھا۔ یہ پل بھی ایک طرف سے ٹوٹ چکا تھا جس میں لکڑی کے تحتے رکھ دیئے گئے جس پر لوگ پیدل سفر کیا کرتے تھے اور اپنے منزل مقصود تک پہنچ جاتے۔

1903 میں بنا چرچل پل 2010 کے سیلاب میں بھی کھڑا تھا

اس پل کی دونوں جانب بیس، بیس ہزار لوگ اپنی باری کا انتظار کیا کرتے تھے۔ اس سے پہلے خیبر پحتون خوا کی صوبائی حکومت اس کو ڈسمنٹل یعنی اکھاڑنے پر تلی ہوئی تھی تاکہ اسے کھول کر اس کا لوہا بیچ دیا جائے مگر اکثریت اراکین صوبائی اسمبلی نے اس کی محالفت کی اور پھر 2010 کے تباہ کن سیلاب میں یہ پل ہی وہ واحد سہارا تھا جسے لوگ پیدل عبور کر کے روزمرہ استعمال کا سامان اٹھا کر لایا کرتے تھے۔ یہ تاریحی پل اب بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے تاہم اس کی مرمت اور دیکھ بال اب ضروری ہے تاکہ یہ تاریحی اثاثہ ضائع نہ ہو۔ اس کے ساتھ قریبی پہاڑی پر ایک مورچہ نما پیکٹ بنا ہوا ہے جسے چرچل پیکٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

ضلع اپر اور لوئر چترال کو ملانے کی غرض سے دریائے چترال پر بھی سینگور کے مقام پر لوہے کا اسی طرح کا ایک پل بنا ہوا ہے۔ یہ پل پاک فوج کی انجینئرنگ کمپنی نے بنایا ہے جس پر 70 کروڑ روپے لاگت آئی۔ اگرچہ یہ پل چکدرہ پل کی نسبت چھوٹا ہے مگر اسے ریکارڈ کم وقت یعنی صرف دس مہینے میں تیار کیا گیا۔ امید ہے کہ یہ پل بھی چرچل پل کی طرح ایک صدی تک اسی طرح قائم رہے گا۔ اس پل کی تعمیر سے ضلع اپر چترال اور آس پاس کے لوگ بھی نہایت خوش ہیں

اس سے پہلے اپر چترال کے لوگ جب گرم چشمہ، سینگور یا چترال یونیورسٹی جاتے تو پہلے بازار جا کر چیو پل کو عبور کر کے دریا کے اس پار واپس یہاں آیا کرتے تھے اور چودہ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے جس پر سڑک کی خرابی کی وجہ سے کم از کم تیس منٹ لگ جاتے تھے، اب اپر چترال کے لوگ نہایت آسانی سے آتے وقت اس پل کے ذریعے گرم چشمہ سڑک پر سفر کر سکتے ہیں اور یہاں کے لوگ بھی بازار جائے بغیر اسی پل کو عبور کر کے بونی سڑک پر اپر چترال تک سفر جاری رکھ سکتے ہیں۔

سڑکوں اور پلوں کو کسی بھی علاقے کی ترقی کیلئے پہلا زینہ سمجھا جاتا ہے جس سے سفری سہولیات کے ساتھ ساتھ تجارت کا سامان بھی آسانی سے بڑی منڈیوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ تاہم عوام کو بھی چاہئے کہ ان اثاثوں کی حفاظت کیلئے کردار ادا کرے تاکہ آنے والے نسلوں کیلئے بھی یہ تاریحی اثاثے محفوظ رہیں اور ضرورت کے وقت ان کو استعمال کیا جا سکے جس سے یقینی طور پر سفر میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button