لائف سٹائل

مہاجرین اور افغان صحافیوں کو پاکستانی میڈیا سے کیا شکایت ہے؟

 

محمد طیب

خیبر پختونخوا میں پہلے سے مقیم اور اب نئے آنے والے افغان مہاجرینوں کو پاکستانی میڈیا سے یہ گلہ اور شکایت ہے کہ ان کے مسائل اور مشکلات کو اس طرح رپورٹ نہیں کیا جاتا جس طرح کہ کرنا چاہیے (اور) یہی وجہ ہے کہ نا تو ان کے مسائل سامنے آتے ہیں اور نا ہی حل ہوتے ہیں۔

اک مقامی پشتو اخبار سے بطور ایڈیٹر وابستہ سینئر صحافی ناصر داوڑ افغان مہاجرین کی اس بات کی تائید و توثیق کرتے ہیں کہ میڈیا انہیں کوریج نہیں دیتا۔ بقول ان کے یہاں بہت سے ایسے افغان صحافی آئے ہیں جو صحافت کو خوب سمجھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

ناصر داوڑ سمجھتے ہیں کہ اگر افغان صحافیوں کو نیوز رومز کا حصہ بنایا جائے تو یہ نا صرف افغان پناہ گزینوں کے مسائل کی نشاندہی کر سکتے ہیں بلکہ افغانستان کے حوالے اچھی خبریں بھی دے سکتے ہیں کیونکہ افغانستان کے مسئلہ کا انہیں زیادہ علم ہے، ”ہر نیوز روم میں، خیبر پختونخوا کے جتنے بھی اخبار ہیں، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز ہیں یا ٹی وی چینل ہیں تو انہیں چاہیے کہ ہمارے جو افغان ساتھی ہیں انہیں یہاں جاب کا حق دیں، انہیں اپنے ساتھ رکھ لیں کیونکہ یہ لوگ میری یا کسی اور کی نسبت اچھا کام کر سکتے ہیں، لیکن میں یہ کہوں گا کہ بدقسمتی سے ادھر اک مرتبہ جو قبلہ کی جانب کھڑا ہوا ہے، پاکستانی جرنلسٹ، تو وہ کہتا ہے کہ افغان امور کا ماہر میں ہی ہوں اور افغانستان کو بھی میں ہی سمجھتا ہوں، زبانوں کو بھی میں ہی سمجھتا ہوں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔”

وہ کہتے ہیں کہ ایک تو ہمارے اکثر میڈیا ادروں کے مالکان کی ترجیحات الگ ہیں تو دوسری طرف پشتو میڈیا ادارے نا ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے افغان پناہ گزینوں کو کوریج اور افغان صحافیوں کو (کام کی) جگہ ملنا مشکل ہے، ”مالکان جو ہیں وہ اس کو ترجیح نہیں دیتے، ہمارے ہاتھ میں ایسا بجٹ یا کوئی ایسی چیز نہیں دیتے تاکہ ان لوگوں کو ہم رکھ سکیں حالانکہ اگر آپ دیکھ لیں تو افغانستان کے حوالے سے اگر ہم بات کرتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ پشتو، دری اور انگلش پر بندوں/ورکرز کو عبور حاصل ہو، تو اگر ہم پاکستان میں ہیں تو ہم زیادہ سے زیادہ پشتو اور انگریزی کو سمجھ جائیں گے لیکن دری کا کیا کریں گے، دری کے لئے بھی ادھر پشاور میں، نیوز رومز میں بھی (ان لوگوں کی) ضرورت ہے اور رپورٹنگ میں بھی درکار ہیں کیونکہ یہ لوگ کر سکتے ہیں لیکن تاحال ہمارے پاس اتنا سپیس (گنجائش) نہیں، اتنے وسائل نہیں کہ ان لوگوں کو ہم رکھ سکیں۔”

دوسری جانب افغانستان سے تعلق رکھنے والے صحافی کہتے ہیں کہ افغان مہاجرین کو بے شمار مسائل درپیش ہیں لیکن پاکستانی میڈیا ادارے ان پر بات نہیں کرتے جس کی وجہ سے افغان مہاجرین کے حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ”پاکستانی میڈیا اداروں کو چاہیے کہ افغانوں کی کم از کم بطور انسان جو بنیادی ضروریات ہیں، انہیں کوریج دیں، اب تک انہوں نے افغان مہاجرینوں کو بالکل فراموش کر رکھا ہے، ان کے مسائل کو اب تک انہوں نے بالکل کوریج نہیں دی، جب سیلاب آتے ہیں تو ان کو کوئی نہیں پوچھتا، ان کو پروموٹ/اجاگر نہیں کیا جاتا، افغان مہاجرین جو کیمپوں میں پل رہے ہیں انہیں صحت کی سہولیات میسر ہیں نا تعلیم کی۔”

افغان صحافی اگرچہ پاکستانی میڈیا اداروں سے شاکی ہیں لیکن بعض ایسے ادارے بھی ہیں جو افغان مہاجرینوں کے مسائل پر توجہ دیتے ہیں۔ پشاور میں مشرق ٹی وی کے ساتھ وابستہ سینئر صحافی جوہر شاہ کہتے ہیں کہ اس وقت خیبر پختونخوا میں لاکھوں افغان مہاجرین مقیم ہیں اور ان کا ادارہ ان کو پورا ٹائم دیتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ خبروں میں ایک حصہ افغان مہاجرین اور افغانستان کو دیتے ہیں اور اس کے علاوہ بعض افغان صحافیوں کو کام کا موقع بھی دیا ہے، ”ہمارے اس چینل، مشرق، کے ابتدائی دنوں میں ادھر تین افغان صحافی تھے جنہوں نے اس وقت ہمارے ساتھ کام کیا تھا، دو کو پھر افغانستان میں روزگار ملا تو وہ ادھر افغانستان چلے گئے اور ایک کسی اور چینل میں تھا کسی دوسری جگہ چلا گیا اسلام آباد میں، اسے روزگار مل گیا تو وہ دوسرے صوبے کو منتقل ہو گیا، موجودہ وقت میں ہمارے ساتھ پھر کسی نے رابطہ نہیں کیا ہے، ہمارا جو ایک گھنٹے کا نیوز بلیٹن ہوتا ہے اسے ہم نے چار حصوں میں تقسیم کیا ہوتا ہے، ایک حصہ قومی خبروں کے لئے، دوسرا خیبر پختونخوا خصوصاً پشاور، تیسرے میں افغانستان کے حوالے سے خبریں ہوتی ہیں، جو سارا کا سارا افغانستان کے مسائل، وہاں کی حکومت اور افغان پناہ گزنیوں کے حوالے سے ہوتا ہے۔”

پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کو اگر پاکستان میں مناسب کوریج مل جائے تو اس کے ساتھ نا صرف افغانوں کے مسائل بڑی حد تک حل ہو سکیں گے بلکہ پاکستان اور افغان عوام کے درمیان اعتماد کی فضا اور بھی سازگار ہو جائے گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button