بلاگزتعلیم

پاکستان کے مسائل: عالم فاضل جاہل اور تعلیمی ادارے

حمیرا علیم

پاکستان کے ویسے تو بہت سے مسائل ہیں لیکن سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے ہوں یا تربیتی ادارے، سب صرف رٹا ہی لگوا رہے ہیں۔ نہ تو ہمارے نصاب میں کچھ ایسا ہے کہ ہمارے بچے دنیا کا مقابلہ کر سکیں نہ ہی ہمارے ہاں دوران تربیت کچھ ایسا سکھایا جاتا ہے جو ہمیں ایک اچھا انسان یا مسلمان بنا سکے۔ خصوصاً بیوروکریسی کی تربیت میں شاید پہلا سبق ہی یہی دیا جاتا ہے کہ انسان کو انسان نہیں حقیر کیڑا مکوڑے جانیے۔ اور دین سے جتنا زیادہ فاصلہ رکھ سکیں اتنا آپ کے حق میں بہتر ہو گا۔ ایک گروپ کے اندر ایک سابقہ بیوروکریٹ کی ایک پوسٹ نے مجھے ایسا سوچنے پہ مجبور کر دیا ہے۔

اگر کوئی ان پڑھ جاہل انسان اسلام یا شعائر اللہ کے بارے میں مزاحیہ یا طنزیہ بات کرے تو بھی درست نہیں کجا کہ ایک اعلی تعلیم یافتہ انسان ایسا کرے۔ جب ہم انگلش یا کوئی بھی زبان سیکھتے ہیں تو حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ اس کے بولنے والوں کی طرح بولیں۔ لہجہ اور تلفظ بالکل ویساہی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ کوئی ہماری خامی نہ نکال سکے۔ لیکن جب بات آتی ہے عربی کہ اور وہ بھی قرآن حدیث کی عربی کی تو ہماری بحث اور لطیفے ہی ختم نہیں ہوتے۔

اللہ تعالٰی نے قرآن پاک کو سات لہجوں میں نازل فرمایا۔ کیونکہ عرب قبائل انہی سات لہجوں میں عربی بولتے تھے۔ اس کو ہم ایسے سمجھ سکتے ہیں جیسے لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں پنجابی ہی بولی جاتی ہے مگر لہجہ مختلف ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی عربی کا معاملہ ہے۔ مختلف عرب ممالک میں لہجے کا فرق ہے۔ لیکن حروف تہجی ایک جیسے ہی ہیں۔ جیسے انگلش میں 26 لیٹرز ہیں چاہے امریکہ ہو یا آسٹریلیا یا انگلینڈ سب جگہ انہی لیٹرز کو استعمال کیا جاتا ہے۔ایسے ہی عربی کے حروف اور ان کا کا تلفظ ہر عرب ملک میں ایک سا ہے۔

جبکہ ایشیائی ممالک میں انہیں اردو، بنگالی، چینی تلفظ کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ بنگالی، ہندوستانی ‘ش’ ادا نہیں کر سکتے۔ پاکستانی داد (ض) کو ضاد، را کو رے با کو بے پڑھتے ہیں۔ اگر تو قدرتی طور پر کوئی ان کے تلفظ کی ادائیگی سے معذور ہو تو شاید رعایت مل جائے لیکن پھر بھی کوشش کرنی چاہیے کہ قرآن کو صحیح تلفظ کے ساتھ سیکھا اور پڑھا جائے۔ لیکن پاکستان میں اس معاملے کو تفریح طبع کیلئے استعمال کیا جانے لگا ہے۔

رمضان قرآنی لفظ ہے۔ اسے قرآن میں رمادان پڑھا جاتا ہے۔ ضیاء بھی قرآنی لفظ ہے جسے دیا پڑھا جاتا ہے۔ اگر ہم کوئی بھی قرآنی لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کی ادائیگی ویسے ہی کرنا لازمی ہے جیسے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سکھائی ہے اور جیسے عرب ادا کرتے ہیں۔

لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ لوگ ایسا کرنے کی بجائے ان الفاظ کا مذاق اڑاتے ہیں کہ عربی میں چ، ڈ، ڑ، گ وغیرہ نہیں ہیں تو کیا ہم گجرات کو کجرات، چاول کو حاول، ڈاکٹر کو داکٹر کہیں۔ آپ اردو میں سب الفاظ کو کسی بھی طرح ادا کریں کسی کو اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں ہے مگر قرآنی الفاظ چاہے آپ اردو میں استعمال کریں یا انگلش، فرنچ یا اسپینش میں آپ پہ بحیثیت مسلمان یہ فرض ہے کہ اسے درست تلفظ کے ساتھ ادا کریں۔

بجائے قرآن حدیث کو اپنی مرضی و پسند کے مطابق ڈھالنے کے خود کو ان کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کیجئے۔ قرآن کے ایک حرف کو پڑھنے پہ دس نیکیوں کا اجر ایسے ہی نہیں مل جائے گا۔ اس کیلئے مشکل اٹھانی پڑتی ہے تبھی اجر بھی رکھا گیا ہے۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مشکل برداشت کرنے کی بجائے آسان اور شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہیں۔ یا پھر کام ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انگلش سیکھنے کیلئے تو جگہ جگہ کوچنگ اکیڈمیز نظر آتی ہیں اور ہم وہاں بخوشی ہزاروں کی فیس دے کر برٹش لہجے میں انگلش بولنا سیکھنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ لیکن عربی زبان نہ تو سکھائی جاتی ہے نہ کوئی سیکھنے کو تیار ہوتا ہے۔ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں قراء حضرات عربی حروف ابجد کو اردو کی طرح پڑھاتے ہیں۔ اور اگر ان سے کہا جائے کہ تجوید و ترتیل سے قرآن پڑھا دیجئے تو وہ صاف انکار کر دیتے ہیں کہ اس کا کورس الگ سے ہوتا ہے ہم تو ایسے ہی پڑھائیں گے۔

جبکہ قرآن کی ایک حرکت (زیر، زبر، پیش) بھی غلط ادا ہو جائے تو اس کا معنی تبدیل ہو جاتا ہے اور علماء اسے حرام درجے کی غلطی کہتے ہیں۔ کجا کہ ہم اس کو بالکل ہی الگ لفظ میں تبدیل کر دیں۔ یاد رکھیے روز قیامت اللہ تعالٰی فرانسیسی، چائنیز، انگلش یا کسی اور زبان میں کلام نہیں فرمائیں گے بلکہ عربی ہی میں مخاطب کریں گے۔ دنیا میں تو شاید کسی بھی زبان کو سیکھے بنا بھی ہم کامیاب ہو ہی جائیں گے۔ جیسے کورین اور چائنیز انگلش نہیں پسند کرتے مگر دنیا کے کامیاب ترین ممالک ہیں۔ لیکن آخرت کی کامیابی جو ایک مسلمان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے قرآن و حدیث، نماز کے درست تلفظ پہ ہی منحصر ہے۔

اس لیے کوشش کیجئے کہ تجوید و ترتیل سے قرآن سیکھیں۔ جیسے کچھ بھی سیکھنے کیلئے انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں اس کیلئے بھی کیجئے۔ اور اگر کسی بھی وجہ سے نہ سیکھ سکیں تو کم از کم اس کا مذاق اڑا کر گناہگار نہ ہوں۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو قرآن پڑھنے اور اس پہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button