ڈیرہ: ایک بیٹی جو کسی کی محبت میں ہیرامنڈی کی طوائف بن گئی
بشریٰ محسود
”میرا نام صدف (فرضی نام) ہے، میرا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔ میں جب چھٹی کلاس میں تھی جب میری ملاقات جاوید سے ہوئی۔ جاوید ہمارے سکول کے ساتھ گلی میں ہمیشہ کھڑا رہتا تھا اور میری جاوید سے دوستی ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ دوستی محبت میں بدل گئی۔ سکول آتے جاتے میری اس سے ملاقات ہوتی رہتی، اس زمانے میں لڑکوں کی دوستی کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا اور گھر والوں کو معلوم ہونے پر لڑکی کو قتل کر دیا جاتا تھا اسی خوف کی وجہ سے میں چپکے چپکے اس سے ملتی تھی، میری ایک کزن بھی میرے ساتھ ہوتی تھی۔
جب میں ساتویں جماعت میں پہنچی تو میرے گھر رشتہ آیا۔ یہ باتیں میری کزن نے مجھے بتائیں تو میں بہت ڈر گئی کہ میرا رشتہ کسی اور سے نہ ہو جائے، میں نے ساری بات جاوید کو بتا دی۔ یہ سن کر جاوید بھی پریشان ہوا اور اپنی امی سے رشتہ کی بات کرنے کا کہا۔ ایک دو روز بعد جاوید نے بتایا کہ اس کی ماں اس کی بات ماننے کو تیار نہیں ہے۔ یہ سننے کے بعد میں بہت پریشان ہوئی اور رونے لگی۔ مجھے لگا کہ میں جاوید کے بغیر مر جاؤں گی۔ وقت گزرتا گیا۔ جاوید نے ایک دن مجھ سے کہا میری ماں مجھ پر بہت غصہ ہے کہ یہ تمہاری شادی کی عمر نہیں ہے اپنی پڑھائی مکمل کرو اور وہاں میرے رشتے دار میرا رشتہ بار بار مانگ رہے تھے۔ میرے رونے پر جاوید نے کہا کہ ہم گھر چھوڑ کے بھاگ جاتے ہیں اور شادی کر لیتے ہیں شادی کے بعد جب واپس آئیں گے تو گھر والوں کو بھی اعتراض نا ہو گا۔
میرے لیے تب جاوید سب کچھ تھا اور اس کی ہر بات حرف آخر لگتی تھی۔ جب جاوید نے کہا کہ کل گھر چھوڑ کر بھاگ جائیں گے تو میں بہت ڈر گئی اور میں نے انکار کر دیا تب جاوید نے مجھے بہت سمجھایا کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا میں ہوں نا ورنہ ساری عمر افسوس کرو گی اور تمہاری شادی کہیں اور ہو جائے گی۔ اگلی صبح میں امی کو گلے مل کر گھر سے نکلی لیکن اسکول کے بجائے سیدھا جاوید کے ساتھ بس اڈے پہنچی، میرے بستے میں کتابوں کی جگہ میری ضرورت کا سامان اور کپڑے تھے۔ جاوید نے بتایا کہ لاہور میں میرا دوست ہے وہ سب انتظام کر لے گا ہم لاہور جا رہے ہیں۔ وہاں ہم جاوید کے دوست کے گھر گئے۔ ایک دو روز بعد جاوید نے گھر کا انتظام کیا اور وہاں چلے گئے۔ ہم لوگوں نے نکاح کر کے اپنی زندگی کا آغاز کیا۔ کچھ وقت ہنسی خوشی گزرا، جاوید گھر سے کافی رقم لے کر آیا تھا اور میں بھی باجی کی جہیز کا زیور اپنے ساتھ لے کر آئی تھی۔
ایک دن جاوید گھر سے باہر گیا، کافی پریشان تھا اور اس کے بعد رات بہت لیٹ جاوید کا دوست آیا اور کہا کہ جلدی سے اپنا سامان اٹھاؤ اور میرے ساتھ میرے گھر چلو۔ میں نے بار بار جاوید کا پوچھا تو اس نے کہا کہ جاوید ڈیرہ اسماعیل خان واپس چلا گیا ہے اور مجھے کہا ہے کہ میں تمہیں اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاؤں۔ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا اور میں اس کے ساتھ اس کے گھر چلی گئی۔
صبح جب میں نے باہر شور کی آواز سنی تو میں باہر گئی، جاوید کے دوست کی ماں غصے میں چلا رہی تھی اور میرا نام لے رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ جاوید مجھے چھوڑ کر واپس چلا گیا ہے کیوں کہ اس کے والد نے پیغام بھجوایا تھا کہ جاوید واپس نہ آیا تو اسے تمام جائیداد سے عاق کر دیا جائے گا اور جاوید نے اپنے دوست سے کہا تھا کہ وہ مجھ سے شادی کر لے کیونکہ میں ایک شریف خاندان کی بہت ہی شریف لڑکی ہوں۔
جاوید کا دوست مجھ سے شادی کا خواہشمند تھا لیکن اس کی ماں ایک ایسی لڑکی سے اپنے بیٹے کی شادی نہیں کروانا چاہتی تھی جو پہلے بھی اپنا گھر ایک لڑکے کی خاطر چھوڑ کر آئی تھی۔ مجبوراً جاوید کا دوست مجھے لے کر ایک عورت کے پاس چھوڑ آیا جس کا نام تبسم بیگم تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ میں یہاں کچھ دن رہوں گی جب کوئی انتظام ہو جائے گا اور وہ جاوید اور گھر والوں کو منا لے گا تو پھر وہ مجھے یہاں سے لے جائے گا۔ میں جاوید کی بے وفائی کے بارے میں سوچ کر روئے جا رہی تھی، اپنے گھر واپسی کا بھی راستہ نہیں تھا، میں جانتی تھی اگر میں گھر واپس جاؤں گی تو مجھے کوئی قبول نہیں کرے گا بلکہ مجھے قتل کر دیں گے۔ مجھے امید تھی کہ شاید جاوید واپس آ جائے۔ میں اس کا انتظار کرتی رہی۔
کچھ دن وہاں رہ کر مجھے معلوم ہوا یہاں کی عورتوں کا اٹھنا بیٹھنا بول چال باقی دنیا سے بہت مختلف ہے۔ ایک دن تبسم بیگم آئی اور مجھ سے کہا کہ تیار ہو جاؤ تم سے کوئی ملنے آیا ہے۔ میرے ذہن پر جاوید کی محبت کا بھوت سوار تھا، مجھے لگا کہ شاید جاوید آیا ہے مجھے لینے لیکن کمرے میں جاتے ہی مجھے معلوم ہوا کہ یہ تو جاوید نہیں بڑی عمر کا کوئی اور مرد ہے۔
وہ میری زندگی کی بھیانک ترین رات تھی اور مجھے اس دن رشتوں، چادر اور چاردیواری کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہ تو ہیرا منڈی ہے اور یہاں پر میری طرح ہزاروں بے بس اور مجبور لڑکیوں کی زندگیاں تباہ ہوتی ہیں۔ میرے انکار پر مجھے مارا پیٹا گیا اور مجھے سخت پہرہ داری میں رکھا گیا۔ اس آزمائش میں میری زندگی کے کئی سال گزر گئے۔ ایک دن ایک صاحب مجھے اپنے ساتھ گھر لے گیا۔ وہاں فون رکھا ہوا تھا تو میں نے فوراً اپنے گھر کا نمبر ملایا اور اپنے گھر فون کیا اور ایک ہی سانس میں ساری بات بتا دی۔
دو دن بعد میرے والد اور چچا لوگ مجھے لینے آئے تبسم کے کوٹھے پہ لیکن تبسم بیگم کسی بھی صورت میں مجھے ان کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں تھی بلکہ وہ انکار کر رہی تھی کہ میں یہاں موجود ہی نہیں ہوں، میرے فون کا حوالہ دیا گیا تو تب مان گئی لیکن ایک شرط پر، چھ لاکھ روپے کی ڈیمانڈ کی اس نے جو میرے والد صاحب کے پاس نہیں تھے۔ میرے چچا نے ایک ہفتے کا وقت لیا اور تبسم بیگم سے کہا کہ وہ میرا خیال رکھے اور مجھے کچھ نہ ہونے دے ہم پیسوں کا انتظام کر کے آتے ہیں۔
ایک ہفتے بعد رقم تبسم بیگم کو دینے کے بعد مجھے اپنے والد کے حوالے کیا گیا، پورے راستے میں ان سے نظریں نہیں ملا سکی۔ گھر پہنچنے پر بھی اپنی ماں کے پاس گئی، سب گھر والے کمرے میں موجود تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی مجھ سے ملا نہیں۔ کافی عرصے گھر والوں کی یہ بے رخی رہی، دادی، کزن اور باجی مجھ سے بات کر لیتی تھیں۔والد نے میرے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگائی تھی اور میرا نام بھی بدل لیا تھا۔ میرے والد نے نہ صرف میرا نام بدلا بلکہ مجھے ایک نئی زندگی دی۔
میں اپنے گھر والوں کے بیچ میں خود کو بہت گناہگار اور ناپاک سمجھتی تھی۔ موسیقی، رقص، ڈھول کی تھاپ سے میں لرز جاتی تھی، میں رات عبادت میں گزارنے لگی کیوں کہ ان وحشی راتوں کے خوف سے مجھے نیند نہیں آتی تھی۔ میری پھوپھو مجھ سے کہنے لگی تم جب یہاں سے بھاگ کر گئی تھی تو تم بارہ تیرہ سال کی چھوٹی سی بچی تھی اور ان چند سالوں میں تم تیس چالیس سال کی عورت لگنے لگی ہو کیوں کہ میری جسامت میں کافی فرق آ گیا تھا۔
پندرہ بیس سال بعد مجھے میرے والد نے بھی قبول کر لیا دل سے اور میرے گناہ معاف کر دیئے۔ اس دوران میں اپنی تعلیم مکمل کر چکی تھی۔ میں اب سلائی کڑھائی کرتی ہوں اور بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہوں اور ساتھ میں ان بچوں کی اخلاقی تربیت بھی کرتی ہوں اور انہیں رشتوں کی اہمیت کے بارے میں بتاتی ہوں تاکہ ایک اور بیٹی محبت کے چکر میں ہیرا منڈی کی طوائف نہ بن سکے۔ اکثر لڑکیاں غیروں کی محبت میں اپنے رشتوں کو ٹھیس پہنچاتی ہیں اور ان کا آخری ٹھکانہ ہیرا منڈی کے طوائف خانے ہوتے ہیں۔
مجھے تو لاہور کے نام سے بھی نفرت ہے۔ 25، 26 سال سے میں ڈیرہ اسماعیل خان سے کہیں باہر نہیں گئی، میں اپنی ساری زندگی اپنے گھر میں ہی گزارنا چاہتی ہوں۔”