تعلیم

باجوڑ: ”دوسرے اضلاع سے ڈاکٹرز نہیں آتے اس لئے عہد کیا کہ ڈاکٹر بنوں گی”

زاہد جان

”میرا نام بلقیس سعید ہے اور والد کا نام ڈاکٹر خان سعید ہے۔ تعلق ماندل سے ہے۔ آپریشن 2008 کے بعد ہمارا علاقہ فوجی آپریشن کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر ہوا اور لوگوں میں خوف وہراس پیدا ہو گیا تھا اور لوگوں نے اپنے بچوں کو گھروں پہ بٹھا دیا خصوصاً بچیوں کو کیونکہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ لڑکیاں تعلیم حاصل کریں، کہ لڑکیوں کی تعلیم کیلئے حالات سازگار نہیں تھے۔ اس کے علاوہ لڑکیوں کی تعلیم کیلئے کوئی خاص سہولیات بھی نہیں ہیں کیونکہ یہاں صرف ایک ڈگری کالج ہے  جس میں سٹاف اور لیب کی کمی ہے۔

میرے والد بھی ڈاکٹر ہیں اور مختلف ہسپتالوں میں میڈیکل سپرانٹنڈنٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں، میرے دو بھائی ڈسٹرکٹ سپیشلسٹ ہیں اور ایک بھابھی گائنا کالوجسٹ ہیں۔ ان سے متاثر ہو کر میں نے بھی میڈیکل کے شعبے میں جانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے مجھے بہت سپورٹ کیا اور بہت حوصلہ افزائی کی۔ یہ ایک عزت مند پیشہ ہے لیکن جہاں تک قبائلی اضلاع کا تعلق ہے تو یہاں پر خواتین میڈیکل شعبے میں نہیں آتیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک پسماندہ علاقہ ہے۔ یہاں پر جو باہر سے ڈاکٹرز آتے ہیں وہ یہاں پر ڈیوٹی کرنا پسند نہیں کرتے اور ان کیلئے یہاں پر سہولیات بھی نہیں ہوتیں خصوصاً یہاں پر ان کے بچوں کیلئے معیاری تعلیم کی سہولت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ یہاں پر آنے سے کتراتے ہیں۔ یہاں پر معیاری سکولوں کی کمی جبکہ کالجز بھی نہیں ہیں۔ میرا یہی مقصد ہے کہ میں ڈاکٹر بن کر اپنے علاقہ کی خدمت کروں کیونکہ دوسرے اضلاع کے ڈاکٹرز باجوڑ میں ڈیوٹی کیلئے نہیں آتے اس وجہ سے میں نے یہ عہد کیا کہ ڈاکٹر بن کر باجوڑ کی خدمت کروں گی۔ لیڈی ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سے یہاں پر خواتین کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

ہمارے آبائی علاقے ماندل میں کوئی سکول کالج نہیں، میرے والد حصول تعلیم کیلئے کئی گھنٹے پیدل سفر کر کے سکول کالج پہنچتے تھے۔ اب بھی وہی حالات ہیں اور ہمارے علاقے میں کوئی سکول اور کالج نہیں ہے۔ ہمارے آبائی علاقے ماندل میں حصول تعلیم کیلئے اب بھی کوئی ادارہ نہیں ہے اور ہمارا علاقہ آج بھی پسماندہ ہے۔

تعلیم جو کسی ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے، قبائلی علاقے میں اس جدید دور کے ہوتے ہوئے بھی لوگ اس نعمت سے محروم ہیں۔ اس محرومی اور مایوسی کے دور میں جہاں امید کا دیا جلایا جا رہا ہے وہ گورنر ماڈل سکول اینڈ کالج خار باجوڑ ہے، یہاں محدود وسائل کے ساتھ بڑے اہداف حاصل کیے جا رہے ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے بھی دیگر تعلیمی اداروں کی طرح خصوصی توجہ دی جائے۔

میرا پیغام ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم بہت ضروری، والدین کو چاہئے کہ اسلامی اصولوں کے اندر رہ کر اپنی بیٹیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں۔ خواتین کی تعلیم عام کرنے سے بہت فائدے ہوں گے وہ مختلف شعبوں میں آ کر عوام کی خدمت کریں گے۔ میں انشاء اللہ تعلیم پوری کر کے واپس باجوڑ آؤں گی اور یہاں پر گائنا کالوجسٹ کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دوں گی۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button