پشاور: ”افغانستان کے مقابلے میں یہاں گزارہ بہت اچھی طرح سے ہو رہا ہے”
باختر ہمت
افغانستان سے آنے والے نئے ازبک، تاجک اور ہزارہ پناہ گزین پشاور اور ملک کے دیگر علاقوں میں زبان نا سمجھنے اور روزگار کے مواقع نا ہونے کا رونا روتے ہیں تاہم دسری جانب ایسے فارسی زبان مہاجرین بھی ہیں جنہوں نے ان تمام مشکلات کے باوجود خیبر پختونخوا میں اپنا روزگار شروع کر رکھا ہے۔
افغانستان کے صوبہ غزنی سے تعلق رکھنے والے حسیب اللہ دو ماہ قبل پاکستان ہجرت کر کے آئے ہیں جنہوں نے کابل کی طرح یہاں بھی ٹھنڈے مشروبات اور افغانستان کے مخصوص برگر کی دکان کھولی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ وہ مقامی لوگوں کی زبان اور ان کے رسم و روج سے شناسا ہو گئے ہیں جس کے ساتھ انہیں روزگار میں بھی سہولت ہو گئی ہے، ”افغانستان میں اس سے قبل میری جوس اور برگر کی دکان تھی اور دو تین شاگرد بھی میرے ساتھ کام کرتے تھے اور اب بھی یہاں جوس اور برگر بیچ رہا ہوں، میں جب یہاں آیا تو پشتو زبان کی کم کم سمجھ آتی تھی (لیکن) اب تھوڑی بہت سمجھ آ جاتی ہے، اب لوگوں کو ہمارے ساتھ کوئی مشکل پیش نہیں آتی، لوگوں سے یہاں ہم خوش ہیں اور لوگ بھی یہاں ہم سے خوش ہیں۔”
حسیب اللہ کہتے ہیں کہ اگرچہ یہاں شروع میں انہیں زبان اور لوگوں کی پہچان سے متعلق مسئلہ درپیش تھا لیکن ایک افغان بھائی کے تعاون سے نا صرف کرایہ پر دکان لینے میں کامیاب ہوئے بلکہ اس میں برگر بیچنا بھی شروع کیا، بقول ان کے دکان میں ان کا بڑا اچھا دھندہ بھی ہو رہا ہے، ”جب یہاں آیا تو شناسا بھی نہیں تھا لیکن یہاں ہمارے ایک افغان بھائی نے ہماری کافی مدد کی، پہلے ایک چھوٹی سی جگہ کرایہ پر لی وہاں برگر فروخت کرتے تھے، اور جب ہمسائیوں اور دیگر لوگوں کے ساتھ واقفیت ہوئی تو ادھر آ کر یہ دکان کرایہ پر لی، جو تجربہ میرا افغانستان میں تھا تو اسی حساب سے آیا اور دکان کرایہ پر لی، گرچہ میرے پاس پیسے نہیں تھے تاہم سارے پیسے ایک فرد سے قرض لئے، دکان بڑی مشکل سے بنائی، اتنا کرنا چاہتا ہوں کہ دن رات گزارہ ہو سکے کیونکہ میں اکیلا نہیں ہوں، فیملی بھی ساتھ ہے اور فی الحال جب سے یہ دکان کھولی ہے افغانستان کے مقابلے میں یہاں ہمارا گزارہ بہت اچھی طرح سے ہو رہا ہے۔”
حسیب اللہ کی دکان کے پاس ہی زندگی گزارنے والے ایک نجی اخبار کے رپورٹر عزیز بونیرے کہتے ہیں کہ اگرچہ حسیب اللہ کو زبان سیکھنے اور مارکیٹ کے لوگوں کے ساتھ شناسائی کا مسئلہ ہے تاہم پھر بھی وہ بڑی چاہ سے حسیب کی دکان پر جاتے اور وہاں ٹھنڈے مشروب پیتے اور برگر کھاتے ہیں، ”روٹی، برگر جسے افغانی برگر کہتے ہیں تو یہ ایک وقت میں صرف بورڈ تک محدود ہو گئے تھے کیونکہ وہ افغان واپس چلے گئے تھے، اب ایک بار پھر 15 اگست کے بعد یہ جو لوگ آئے تو اس کے ساتھ ایک بار پھر وہ نئی خوراکیں اور وہ جو افغانی برگر ہے وہ لوگوں کو شہر کے مختلف علاقوں میں نظر آئے، تو یقیناً یہ بہت ذائقہ دار ہے، ہم نے تو خود بھی کھائے اور لوگوں کو بھی دیکھا کہ بڑے شوق سے کھاتے ہیں، اور اس میں وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس میں زیادہ تر کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی جو زیادہ نقصان دہ ہو اور دوسرے افغان جب یہ برگر تیار کرتے ہیں تو صفائی کا بڑا خیال رکھتے ہیں تو اس کی وجہ سے لوگ بڑے شوق سے یہ کھاتے ہیں۔”
عزیز نے مزید بتایا کہ کہ اگر دیگر فارسی زبان بھی حسیب اللہ کی طرح ہمت سے کام لیں اور اپنے لئے کسی روزگار کا بندوبست کریں تو امید ہے کہ ان کے مسائل میں کمی آئے گی اور ان کی زندگی میں خوشیاں لوٹ آئیں گی۔