بلاگزلائف سٹائل

رمضان ٹرانسمیشن: ٹی وی چینل پروگرام یا شیطان کے شاگردوں کا کام

حمیراعلیم

آج سحری میں میرے چھوٹے بیٹے نے ‘ڈسکور پاکستان’ چینل آن کر دیا جہاں ایک پروگرام آ رہا تھا "ڈسکور اسلام” ایک بغیر داڑھی کے اور مونچھوں والے صاحب بیٹھے بڑی فلسفیانہ باتیں کر رہے تھے اور پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کو شاید دین پڑھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ باقی سوالات و جوابات تو سننے کا اتفاق نہیں ہوا مگر ایک فقرا جو کانوں میں پڑا خاصا خوفناک لگا۔ فرما رہے تھے: "قرآن کی ہر سورت کے شروع میں آیات کی تعداد لکھی ہوتی ہے لیکن جب آپ انہیں پڑھتے ہیں تو آیات کم یا زیادہ ہوتی ہیں تو یہ 6666 آیات نہیں ہیں جو زائد آیات ہیں۔۔۔۔۔”

اس سے آگے سننے کا نہ یارا تھا نہ خواہش۔ کیونکہ جو شخص سنت کی مخالفت میں مونچھیں رکھے ہوئے اور داڑھی منڈوائے ہوئے تھا اس سے دین کی یہی تفسیر متوقع تھی۔

ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ کوئی شخص ایک لمبا سفر طے کر کے دوسرے ملک میں ایک شخص سے حدیث سننے گیا کیونکہ وہ شخص حدیث کے راویوں میں سے تھا۔ جب وہ اس کے گھر پہنچا تو دیکھا وہ ہاتھ کہ اوک بنائے گھوڑے کو بلا رہا تھا کہ وہ چارا کھا لے جب کہ اس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہ تھا۔ وہ شخص وہیں سے پلٹ گیا۔ کسی نے پوچھا جس مقصد سے تم آئے تھے وہ تو پورا کر لیتے اس نے جواب دیا: "جو شخص جانور کو دھوکہ دے سکتا ہے وہ حدیث کا راوی نہیں ہو سکتا۔”

ان صاحب کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا تھا۔ وہ بطور عالم ایک ٹی وی چینل پہ بیٹھ کر بزعم خود دین سکھا رہے تھے اور اس حقیقت سے ناآشنا تھے کہ قرآن کی ہر ایک آیت کی جگہ اور سورتوں کی ترتیب اور ان میں آیات کی تعداد سب اللہ تعالٰی نے جبریل علیہ السلام کے ذریعے خود بتائیں اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود تدوین کروائیں۔ اور اس میں کسی بھی قسم کی کمی بیشی کا کوئی امکان نہیں۔

"نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہ ایسی سورتیں نازل ہوتیں جو کئی آیات پہ مشتمل ہوتی تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کاتب کو بلاتے اور انہیں بتاتے ان آیات کو اس سورت میں لکھو جہاں یہ اور یہ مذکور ہے۔ سورہ الانفال مدینہ میں نازل ہونے والی ابتدائی سورتوں میں سے ایک تھی۔ اور سورہ التوبہ قرآن کے آخری حصے میں سے ایک تھی۔ دونوں میں ایک جیسے قصص بھی تھے اس لیے اسے الانفال کا حصہ سمجھا گیا۔ اس سے پہلے کہ نبیؐ اس کے متعلق بتاتے ان کا وصال ہو گیا۔ چنانچہ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ رکھ دیا گیا اور درمیان میں بسم اللہ نہیں لکھی گئی۔ اور سورہ التوبہ کو سبع الطوال یعنی سات لمبی سورتوں میں رکھا گیا۔” (المستدرک 2-330) الحکیم اس کی اسناد کو صحیح قرار دیتے ہیں۔

القاضی ابو بکر انتصار میں کہتے ہیں: "آیات کی ترتیب واجب ہے۔ جبریل علیہ السلام نبیؐ کو بتایا کرتے تھے کہ "فلاں فلاں آیت کو فلاں فلاں جگہ پہ لکھیں۔”

البغوی شرح السنہ میں لکھتے ہیں: "نبیؐ صحابہ کرام کو قرآن اسی طرح سکھاتے اور لکھتے تھے جیسے کہ وہ نازل ہوتا تھا اور یہی ترتیب آج ہمارے مصحف میں موجود ہے۔ وہ ترتیب جو جبریل علیہ السلام نے انہیں سکھائی تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام صرف کاتبین تھے نہ کہ اسے ترتیب دینے والے۔ قرآن لوح محفوظ میں اسی ترتیب سے موجود تھا اللہ تعالٰی نے اسے مکمل طور پر پہلے آسمان پہ نازل کیا۔ جہاں سے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے بقدر ضرورت دنیا میں نازل کیا گیا۔”

ٹی وی چینلز نے شیطان کے شاگردوں کا کام اپنے ذمے لے لیا ہے، اداکاروں اور ایسے جاہل علماء کو دین سکھانے کیلئے سحر و افطار میں سکرینز پہ بٹھا دیتے ہیں جو دین کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے مگر فتاوی فوراً جاری کر دیتے ہیں۔اگر ان میں سے ایک بھی عالم یا اداکار صرف باعمل مسلمان ہی ہوتا تو کبھی موسیقی کے ساتھ خواتین کے گانوں کی طرز پہ گائی جانے والی نعتوں اور بے پردہ نامحرموں کے ساتھ یہ ٹرانسمیشن ہی نہ کرتا۔

اگر ان چینلز کا مقصد واقعی ہی اسلام سکھانا ہے تو انہیں چاہیے کہ اصل اور  باعمل علماء سے کام لیں اور لیکچرز کی صورت میں لیں نہ کہ سرکس لگا کر وہاں انہیں بٹھا کر ان کا بھی مذاق بنوائیں اور دین کا بھی۔ اللہ تعالی ہمیں اسلام کو سمجھنے اور اس پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button