بونیر میں ماربل انڈسٹری ورکرز کے حقوق کی راہ میں حائل رکاوٹیں
عظمت حسین
ورکرز ویلفیئر بورڈ نے 10 لاکھ روپے ادائیگی پر فیصلہ میرے حق میں دیا تھا لیکن "ننواتی” کے بھینٹ چڑھ کر مجھے صرف 3 لاکھ روپے ملے۔ ماربل مائینز میں ہاتھ سے محروم ہوئے مزدور کا بیان
بونیر میں پاکستان کے ماربل کی سب سے بڑی انڈسٹری قائم ہے اور اس میں سب کچھ ٹھیک جارہا ہو ایسا ممکن ہی نہیں کیونکہ ہر جگہ اچھائی کے ساتھ برائی بھی شامل ہوتی ہے۔ مقامی مزدور نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ ”ماربل مائینز میں کام کے دوران میرا ہاتھ کٹ گیا تو ابتدائی علاج کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔قانون کے مطابق کام کے دوران زخمی ہونیوالے مزدور کو لیزہولڈر کی جانب سے معاوضہ ادا کرنا پڑتا ہے جب میں نے اپنے معاؤضے کا مطالبہ کیا تو متعلقہ لیز ہولڈر نے مقررہ رقم کی ادائیگی سے انکار کیا۔ معاملہ طول پکڑتا گیا تو دو سال گزرنے کے بعد مجبوراً مائینز ڈیپارٹمنٹ ڈگر بونیر میں ایف آئی آر درج کی اور سوات میں قائم ورکرز ویلفیئر بورڈ میں کیس دائر کیا۔ عدالت میں دو سال مقدمہ چلنے کے بعد 10 لاکھ روپے آدائیگی کی صورت میں فیصلہ میرے حق میں کیا گیا”
ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے تو اپنا حق ادا کرکے فیصلہ ان کے حق میں دے دیا لیکن لیز ہولڈر نے عدالت میں شکست کے بعد ان کے گھر "ننواتی” بھیج کر 3 لاکھ روپے میں بات ختم کی اور انہیں تاحیات واپس کام پر لگا دیا جبکہ ان کے بچوں کے کام کی بھی ذمہ داری قبول کی۔”ننواتی پشتو ن رسم و رواج کا حصہ ہے جس میں خاندان کی خواتین، بچوں، بزرگوں یا علاقے کے معززین کو جرگہ کی شکل میں متاثرہ خاندان کے ہاں بھیج دیا جاتا ہے اور اپنی خطا قبول کرکے معافی طلب کی جاتی ہے۔ متاثرہ خاندان کو "ننواتی” ہر صورت قبول کرنا پڑتا ہے اور اگر متاثرہ خاندان” ننواتی” کو قبول نہ کریں تو انہیں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ اسے کسی جرگہ وغیرہ کا حصہ بھی نہیں بنایا جاتا”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے کیس کے بعد باقی مزدوروں کو بھی حوصلہ ملا اور کیسز دائر کرکے اپنے حق کو بذریعہ عدالت حاصل کیا۔
بخت زادہ کا تعلق بامپوخہ سے ہے جو کہ ضلع بونیر کے ہیڈکوارٹر ڈگر سے قریباً 30 کلومیٹر فاصلے پرتحصیل گدیزی کا علاقہ ہے جسے "مائیننگ حب” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ بخت زادہ کے مطابق ان کا بچپن سے لے کر جوانی تک کا عمر مائیننگ سے وابستہ رہا ہے۔ ابتدائی طور پر مزدور کی حیثیت سے فیکٹری میں کام کرتے تھے جہاں چھ سال تک مختلف مشینوں پر کام کرتےرہے۔ ان چھ سالوں میں ان کے ساتھ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا البتہ دیگر فیکٹریوں میں اس طرح کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ سہولیات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کارخانے میں کام کرنے والے تمام مزدوروں کے کل اخراجات کارخانہ مالک یا اجارہ دار یعنی "لیز ہولڈر” برداشت کرتا ہے۔ یعنی تین وقت کا کھانا، علاج، رہائش گھر آنے جانے کے اخراجات یہ سب کچھ ان کی تنخواہ میں شامل نہیں ہوتیں یہ انہیں الگ سے دیئے جاتے ہیں یعنی جس طرح گھر کے کسی فرد کا خیال رکھا جاتا ہے بونیر کے ماربل کارخانوں میں ایک مزدور کا اتنا ہی خیال رکھا جاتا ہے۔
لیبر یونین اور مزدور کے حقوق کے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر مزدور اور فیکٹری مالکان یا لیزہولڈر لوکل ہیں اسی لئے ہمارے درمیان تنازعات لوکل سطح پر ہی حل ہوجاتے ہیں البتہ یونین کے بارے میں سچ کہوں تو ابھی تک کسی نے یہ جرات نہیں کی کہ لیبر یونین بنائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو مزدورں کا آپسمیں اتفاق نہیں ہے ہر کو اپنے کام کا پڑا ہوا ہے کہ اگر مالک کے خلاف کھڑا ہوا تو انہیں کام سے نکال دیا جائے گا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں کے زیادہ تر مزدور اپنے حقوق اور قانونی راستوں سے ناواقف ہیں۔ انہیں لیز ہولڈرز جتنا دیتے ہیں وہ ان ہر راضی ہوجاتے ہیں۔
بونیر میں قائم ماربل کارخانوں یا مائینز کی قانونی حیثیت کے حوالے سےایڈووکیٹ ہائیکورٹ الطاف حسین کا کہنا تھا کہ بونیر میں تقریباً 60 فیصد کارخانے یا مائینز ماورائے قانون بنے ہیں اسی لئے کسی کے پاس مزدوروں کا حقیقی ریکارڈ موجود نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مزدوروں کو ان کے حقوق کے حصول میں دشواری آتی ہے۔ دوسری وجہ مزدوروں کا اپنے حقوق سے آگہی نہ ہونے کا ہے اور تیسری بنیادی وجہ لیبرز یونین کا نہ ہونا ہے۔ چونکہ نیشنل لیبر ریلیشنز ایکٹ مزدوروں کو اپنے حقوق کے لئے یونین بنانے کا اختیار دیتا ہے اسی لئے مزدوروں کو ضرور یونین بنانا چاہیئے تاکہ ان کی آواز اٹھا سکے۔
ماربل ایسوسی ایشن بونیر کے نائب صدر گل روز نے بونیر کی ماربل انڈسٹری کو نہ صرف خیبرپختونخوا کے لئے بلکہ پورے پاکستان کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے کل ماربل میں 65 فیصد حصہ بونیر کا ہے جبکہ خیبرپختونخوا کا 85 فیصد ماربل بونیر سے جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بونیر میں اس وقت قریباً 350 کارخانے ہیں اور 250 ماربل مائینز ہیں جن میں استعمال ہونیوالی ہیوی مشینری کے علاوہ 4 ہزار کے قریب ٹرک بھی مصروف عمل ہیں جبکہ ماربل کارخانوں اور مائینز میں ساڑھے دس ہزار کے لگ بھگ مزدور کام کر رہےہیں۔ کارخانوں سے ماہانہ ڈیڑھ ارب جبکہ مائینز سے ہامانہ آمدن ڈھائی ارب روپے ہیں، جو کہ نہ صرف بونیر، بلکہ صوبے کے ریوینیو کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ دیگر منسلک کاروبار جیسا کہ کانٹا، ہوٹلز، ورکشاپس اور پٹرول پمپس کا آمدن بھی بالواسطہ ماربل انڈسٹری کا ہی مرہون منت ہے۔
مزدورں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کارخانوں یا مائینز میں کام کرنے والے مزدوروں کو ان کے بنیادی حقوق وقت پر دیئے جاتے ہیں۔ ان کی سیکیورٹی، صحت، رہائش، الاؤنسز اور گھر آنے جانے کے اخراجات مالکان ہی ادا کرتے ہیں۔ اگر دوران کام کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجائے تو انہیں ابتدائی علاج معالجے کے بعد گھر کی کفالت کے لئے معقول معاوضہ دیا جاتا ہے جوکہ جسمانی عضو سے محروم فرد کو ایک لاکھ پچاس ہزار جبکہ فوت شدہ فرد کو 3 لاکھ روپے دیئے جاتے ہیں۔
ماربل انڈسٹری کے امپرومنٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کو تیار ہیں لیکن حکومت اپنے کسی بھی اقدام میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا بلکہ الٹا ہمیں مختلف ٹیکسوں کے بوجھ تلے روند دیا جاتا ہے۔ 2013 میں جب صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنی تو پہلے ہی بجٹ میں بونیر کے لئے ماربل انڈسٹری کے قیام کا اعلان کیا لیکن حال یہ ہے کہ 2020 میں ا س کے لئے روپے منظور کئے گئے جس سے صرف زمین کی خریداری کا عمل ممکن ہوسکا، جبکہ دیگر کام ابھی باقی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ماربل انڈسٹری کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا عملی مظاہرہ کریں تو حکومت کی ایک قدم کے ساتھ ہم بہتری کی طرف تین قدم بڑھائیں گے اور ملک ریونیو کو بڑھانے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
انسپکٹر مائینزکے مطابق مائینز ڈیپارٹمنٹ بونیر میں اس وقت کمپیوٹرائزیشن کا عمل جاری ہیں جو کہ جلد ہی مکمل کرلیا جائے گا۔ مائینز ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ اس وقت رجسٹرڈ مائینز کی کل تعداد 388 ہیں جن میں 326 فعال جبکہ 62 غیر فعال ہیں جبکہ ادارے کے ساتھ مزدوروں کی رجسٹرڈ تعداد 1326 ہیں۔
انسپکٹر مائینز کے مطابق زخمی یا جاں بحق مزدور کو تین طرح کی امداد دی جاتی ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے بعد ضلعی انتظامیہ ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر منیجمنٹ کمیٹی کے قائم کردہ فنڈ سے زخمی مزدور کو ایک لاکھ روپے جبکہ جاں بحق مزدور کو 3 لاکھ روپے دیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح لیزہولڈر کی طرف سے بھی زخمی مزدور کو ایک لاکھ جبکہ جاں بحق مزدور کو 3 لاکھ روپے دیئے جاتے ہیں جبکہ ورکرز ویلفیئر بورڈ کی طرف سے بھی زخمی یا جاں بحق مزدور کو 5 لاکھ روپے دیئے جاتے ہیں۔ کل ملا کے ایک زخمی مزدور کو 7 لاکھ جبکہ جاں بحق مزدور کے اہل خانہ کو 11 لاکھ روپے ملتے ہیں۔
ورکرز یونین ہمیشہ سے مزدوروں کے حقوق کے کا ضامن رہا ہے جہاں یونین ہوتا ہے وہاں نہ صرف لیزہولڈر یا مالکان بلکہ حکومتی ادارے بھی مزدوروں کے حقوق حذف یا پڑپ کرنے سے کتراتے ہیں لیکن بد قسمتی سے بونیر میں اس وقت نہ کوئی فعال ماربل یونین ہے نہ کوئی غیرسرکاری تنظیم جو کہ مقامی سطح پر مزدوروں کے حقوق کے لئے آواز اٹھا ئے یا ان کے مسائل حل میں مدد کرسکے۔
ماربل مائینز ورکرز یونین ترکو ہلز صوابی پختونخوا میں ماربل سے منسلک مزدوروں کے حقوق اور فلاح و بہبود کے لئے کام کرتا ہے۔ یونین کے صدر اور مائینز ویلفیئر بورڈ خیبر پختونخوا کے ممبر افتخار احمد کہتے ہیں کہ پاکستان کے سطح پر 70 فیصدجبکہ عام استعمال یعنی سنی گر ے اور سنی وائیٹ قسم کے ماربل کا 80 فیصد حصہ بونیر پیدا کرتا ہے، اسی لحاظ سے یہاں کے مزدوروں کو ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہماری ذمہ داری ہے۔ ترکو ہلز صوابی ورکرز کی آگہی کے لئے مقامی پریس کلب اور کمشنریٹ یا ڈئریکٹریٹ کے ساتھ ملکر مختلف سیمینارز کا انعقاد کرتے ہیں جو کہ مزدور کا ڈائریکٹریٹ، اینسپکٹریٹ اور کمشنریٹ کے ساتھ باہم روابط میں کردار ادا کرتے ہیں۔ انسپکٹریٹ کے ذریعے آن لائن رجسٹریشن کے ذریعے باہم معذوری کے شکارمزدوروں کے بچوں کی تعلیم کے لئے گزشتہ سال ملاکنڈ ڈویژن میں 410 سکالرشپس تقسیم کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کمشنریٹ نے ایک سکیم کے ذریعے ہمارے یونین کے وساطت سے گزشتہ تین سال سے تین لاکھ روپے معذوری گرانٹ کا اجراء بھی کیا ہے جس سے متعلقہ افراد مستفید ہورہے ہیں۔مزدوروں کے رجسٹریشن کے حوالے سےان کا کہنا تھا کہ ماربل انڈسٹری اتنی وسیع ہے کہ بیک وقت سینکڑوں کاروبار اس جڑے ہوئے ہیں، ان کی تنظیم نے صرف مائنز میں کام کرنے والے مزدوروں کے اعدادو شمار کو اکھٹا کیا ہے جو کہ تقریباً 2300 ہیں جبکہ باقی پر بھی مرحلہ وار کام جاری ہیں۔
پشتون رسم "ننواتی” کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ پشتون معاشرے میں جرگہ نظام اور خصوصی طور "ننواتی” بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ بہت سارے حل طلب واقعات جرگہ یا ننواتی کے ذریعے حل ہوئےہیں جو کسی انسانی جان کے ضیاع کا سبب بن سکتے تھے لیکن بدقسمتی سے بعض اوقات یہ کمزور طبقے کو ان کے حقوق دینے کے بجائے چین لیتے ہیں۔ اسی لئے ان کی تنظیم نے خصوصی نظر رکھ مائنز سیکٹر میں اس رواج کے خاتمے کے لئے کام کیا ہے جس کے نتیجے میں سال 2021 میں 20 متاثر مزدوروں کو لیز ہولڈر سے گرانٹ دلوایا گیا ہے۔
انہوں نے حکومتی اداروں کے تعاون کا اعتراف کرتے ہوئے ساتھ مطالبہ کیا کہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر انڈسٹری کے آفس کو سوات سے بونیر منتقل کیا جائے اور مزدوروں سے بھی اپیل کی کہ وہ اپنے اداروں کے ساتھ باہم رابط کو مضبوط بنائے جبکہ حادثات کیے پیش نظر کام کے دوران اپنے سیفٹی کو یقینی بنائیں۔
مجموعی طور پر بونیر کے ماربل انڈسٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کے حقوق کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاؤٹ تعلیم کی کمی اور حقوق سے آگہی کا نہ ہونا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت ، لیبر یونینز، ورکرز یونین اور دیگر نیشنل و انٹرنیشل غیرسرکاری تنظیمیں مزدوروں کی تعلیم و آگہی کے لئے اپنابھرپور ادا کریں تاکہ ملک کی 80 فیصد ماربل پیداوار سے وابستہ بونیر کے ان مزدوروں کا استحصال نہ ہواور انہیں بروقت اور بغیر کسی رکاؤٹ کے اپنا حق ملے۔