بلاگزلائف سٹائل

خواتین پر گھریلو تشدد کا خاتمہ کب ہوگا؟

انیلا نایاب

رات کو گہری نیند سے میری آنکھ کھلی بہت تیز آوازیں آرہی تھی کمرے سے باہر جا کر دیکھا تو سب گھر والے جاگ رہے تھے پوچھنے پر پتہ چلا کہ سامنے والے گھر سے خاتون کی تیز آوازیں آرہی ہے میرے بھائی سمیت تقریباً محلے کے سارے مرد گھروں سے باہر کھڑے تھے اور ہم گھر کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہے تھے بہت رونے کی آوازیں آرہی تھی۔

ایک دم سے گھر کا دروازہ کھلا ایک خاتون بغیر دوپٹے کے نکلی اس خاتون کے چہرے اور گردن پر زخم کے گہرے نشانات بھی تھے جس سے خون بہہ رہا تھا بال بکھرے تھے خاتون کا حلیہ بتا رہا تھا کہ اس پر کتنا تشدد ہوا ہے خاتون چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی اگر تم لوگوں میں شرم نہیں ہے تو مجھ میں بھی نہیں ہے خاتون کے گھر سے نکلتے ہی اس کا شوہر جس کے ہاتھ میں چاقو اور دیور کے ہاتھ میں پیچکس تھا انکے پیچھے نکلے۔

چاہے جتنے بھی قانون بنے یا ایوانوں سے پاس ہو لیکن جب تک خاتون میں فیصلہ کرنے کی جرت نا آجائے سب بے کار ہے کیونکہ اسلام نے عورت کو جتنے حقوق دیے ہیں اسکی مثال دنیا میں نہیں ملتی لیکن بد قسمتی سے عورت کو اپنے فیصلے کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے۔

محلے کے چند آدمیوں نے اُن دو آدمیوں کو پکڑ کر روکا خاتون کا شوہر چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ یہ گھر سے نکلی ہے میری عزت خراب کی اب اس کو نہیں چھوڑوں گا۔ خاتون ڈر کے مارے دوسری گلی میں چھپ گئی تھی میرے بھائی نے گھر سے چادر لے کر اس عورت کے سر پر ڈال کر گھر جانے کو کہا محلے کے لوگوں نے معاملہ رفع دفع کردیا اور اس کے بعد کیا ہوا ہمیں معلوم نہیں۔

ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اصل وجہ کیا تھی کہ اس خاتون کو اتنا مارا گیا میرے خیال میں کوئی بھی شخص اتنا ظالم نہیں ہوتا کہ اپنی بیوی کو اتنی بےدردی سے مارے اب اصل حقیقت کیا ہے صرف وہ لوگ جانتے ہیں اور اللہ۔
بزرگوں نے کیا خوب کہا ہے کہ جب مرد غصے میں ہو تو خاموشی اختیار کرنی چاہئے اللہ کے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنا ہوتا تو وہ خاوند ہوتا۔

ہو سکتا ہے اس خاتون کی اتنی بڑی غلطی نا ہوتی جتنا کہ اس کو مارا گیا اس کے روح کو زخمی کیا گیا۔ عورتوں پر تشدد سالوں سے چلا آرہا ہے، جس کے لئے گھریلو تشدد کے قانون سے لے کر بے شمار حقوق کے حوالے سے قانون سازی کی گئی ہے لیکن قانون سے زیادہ اس پر عمل بہت ضروری ہے اور خواتین میں اس حوالے سے شعور اجاگر کرنا بھی بے حد ضروری ہے۔

یہ وہی کند ذہن لوگ ہیں جو اپنی بہن بیٹی کی تعلیم کے خلاف ہیں بیغیرتی سمجھتے ہیں کہ کیا ہماری بہن بیٹی پڑھ کر مردوں کے ساتھ نوکری کرے گی ہمیں ان سے کون سے نوکری کروانی ہیں جو تعلیم دلوا دیں۔
تعلیم نوکری کرنے کے لئے نہیں بلکہ شعور کے لیے حاصل کرتے ہیں اگر بہن بیٹی کو اچھی تعلیم دینگے تو آگے جا کر وہ اپنے گھر کو خوشحال بنا سکتی ہے وہ یہ بھی جان جاتی ہے کہ خاوند کے اس پر کیا کیا حقوق ہیں۔ وہ ایک اچھی بیٹی اچھی بہو اچھی بیوی اور پھر ایک اچھی ماں بن سکتی ہیں۔

اس سے بڑھ کر عورت کو فیصلہ کرنے کا پورا اختیار دیا جائے تاکہ وہ بغیر ڈر و خوف کے کوئی بھی فیصلہ آسانی کے ساتھ کریں۔ یہ تب ممکن ہے جب عورت کو معاشی طور پر مستحکم بنایا جائے وہ جس طرح کہتے ہیں کہ معاشی استحکام فیصلہ کرنے کی قوت پیدا کرتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button