”کاش ہمارا اپنا وطن آباد ہوتا تو پرائے ممالک کے لوگوں کی تلخ باتیں کیوں سننا پڑتیں!”
محراب آفریدی
پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا میں مقیم افغان مہاجرین یہ گلہ کرتے ہیں کہ پشاور میں چند سال قبل ایک سکول پر دہشت گرد حملے کے بعد ان لوگوں کا رویہ بھی ان کے ساتھ خراب ہوا ہے اس سے قبل جو ان کی حمایت کرتے تھے۔
اس سانحہ کے بعد حکومتِ پاکستان کی سخت پالیسی کے باعث ہزاروں افغان مہاجرین اپنے ملک واپس چلے گئے تھے تاہم گزشتہ سال اگست میں حکومت تبدیل ہونے کے بعد افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے پاکستان ہجرت کی ہے۔
ان میں سے بعض مہاجرین اب بھی شکایت کرتے ہیں کہ مقامی لوگوں کا رویہ ان کے ساتھ توہین آمیز اور تعصب پر مبنی ہوتا ہے۔ کابل کی رہائشی ثناء بی بی کے مطابق دونوں ممالک کے عوام کے دلوں میں ایک دوسر کی محبت ہے تاہم بدقسمتی سے انہیں بچپن میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں برادر اسلامی ممالک ہیں اور دونوں کے عوام کی طرز زندگی اور مسائل ایک جیسے ہیں۔
ثناء بی بی مُصر رہیں کہ اس وقت چونکہ افغان بے شمار مسائل سے دوچار ہیں تو پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ ان کی ہر طرح سے مدد کریں، ”پاکستان اور افغانستان کے درمیان یہ نفرت اس طرح سے ختم ہو سکتی ہے کہ اس حوالے سے یہ آگاہی دی جائے کہ ہم سب بہن بھائی ہیں، کیونکہ بچپن سے دونوں اطراف کے لوگوں کے اذہان میں یہ بات بٹھائی گئی ہے کہ یہ ایک دشمن ملک ہے اور وہ ایک دشمن ملک ہے لیکن نہیں، اس لئے ضروری ہے کہ اس حوالے سے دونوں طرف سیمینارز اور دیگر زرائع سے یہ آگاہی پھیلائی جائے کہ ہم دونوں مسلمان ہیں اور دوست ممالک ہیں، چاہیے اس پر بات ہو اور دوسرے پاکستانیوں کو چاہیے کہ افغانوں کے لئے گزرگاہ/آمدورفت میں آسانیاں دیں کیونکہ آج کل ہمیں زیادہ مسئلہ طورخم پر اور ویزہ کا ہے، تو اپنے افغان بھائیوں کے لئے یہ مسئلہ حل کریں۔”
صوبہ ننگرہار سے تعلق رکھنے والے ثناءاللہ نے مگر بتایا کہ ادھر زیادہ تر لوگوں کا رویہ ان کے ساتھ ٹھیک ہوتا ہے لیکن بعض لوگ اچھا سلوک نہیں کرتے جس کے بعد ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور پھر یہ خیال دامن گیر ہوتا ہے کہ کاش ہمارے اپنے ملک میں امن و امان ہوتا تو وہ پرائے ممالک کے لوگوں کی جانب سے برابھلا کیوں سنتے، ”یہاں کچھ ایسے پشتون بھائی ہوتے ہیں جو اپنے احساسات یا پھر صحیح معلومات نا رکھنے کی وجہ سے افغان مہاجرین کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں، اور اس رویہ کی وجہ سے اکثر اوقات بندہ مایوس ہو جاتا ہے اور یہ سوچتا ہے کہ کاش میرا اپنا ملک آباد ہوتا، میں حالات کے ہاتھوں یوں مجبور نا ہوتا کہ اپنا ملک چھوڑ کر ادھر پختونخوا میں مہاجرت کی زندگی گزاروں۔”
ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے معروف آفریدی نے اس حوالے سے بتایا کہ پشتونوں کا افغانوں کے ساتھ رویہ مناسب ہوتا ہے، ان کا خیال رکھتے ہیں لیکن اگر کوئی ان کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہاں افغانستان کی انتظامیہ یا وہاں کے عوام نے ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا ہو گا اور انیں برا بھلا کہا ہو گا، ”افغان عوام کی ایک بڑی تعداد خاص کر وہاں کی پولیس ہمارے لوگوں خصوصاً ٹرانسپورٹ والوں کے ساتھ بڑا سخت سلوک روا رکھتی تھی، انہیں گالیاں دیتے اور برا بھلا کہتے تھے تو اس وجہ سے نسبتاً اس کم تعداد کے لوگوں کا رویہ افغانوں کے ساتھ سخت ہوتا ہے باقی عام لوگ تو افغان مہاجرین، خواہ پہلے آئے تھے یا جو اب آئے ہیں، کو بہت عزت دیتے ہیں اور ان کی بڑی آؤبھگت کرتے ہیں۔”
افغان خاتون سلسلہ کا کہنا تھا کہ عام لوگوں کے ساتھ ساتاھ یہاں کے انتظامی اداروں کا بھی رویہ ان کے ساتھ ٹھیک نہیں ہوتا اور مختلف حیلوں بہانوں سے انہیں تنگ کیا جاتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ افغان عوام اس وقت بڑی مشکلات سے دوچار ہیں اس لئے چاہیے کہ یہاں ان کے ساتھ ہر ممکن امداد کی جائے، ”افغان مہاجرین حکومتی اداروں میں جاتے ہیں اپنے امور کے سلسلے میں تو ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں برتا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ زیادہ باتیں مت کرو، کام کر کے جاؤ یہاں سے، ہمیں کوئی موقع بھی نہیں دیا جاتا مثلاً یہاں کی وزارت داخلہ کی جانب سے ہمیں بتایا جاتا ہے کہ آپ کی یہاں مدت پوری ہو گئی ہے یہاں اور آپ کو مزید قیام کی اجازت نہیں لہٰذا آپ واپس چلے جائیں۔”
اگرچہ بعض پاکستانی بوجوہ افغان مہاجرین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے تاہم ضلع خیبر کے ساجد نے افغان مہاجرین کے ساتھ اپنی بساط کے مطابق ہر ممکن تعاون کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے۔ انہوں نے دیگر لوگوں پر بھی زور دیا کہ افغانوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور مشکل کی اس گھڑی میں ان کا ساتھ دیں، ”عمومی طور پر دیکھا جائے تو یہ افغان مہاجر ہمارے اسلامی بھائی ہیں اور جو بھی مصیبت آئی ہے ہم نے ان کا ساتھ دیا ہے، سو میں تقریباً اٹھانوے فیصد لوگ ایسے ہیں جن کا یہ ماننا ہے کہ خدانخواستہ آئندہ بھی ضرورت پڑی تو وہ اپنی ہر ممکن مدد کریں گے، آج اس مشکل کی گھڑی میں بھی ہر کسی نے اپنی بساط کے مطابق ان لوگوں کی خدمت کی ہے اور آئندہ بھی کریں گے۔”