لائف سٹائل

خواتین کے لیے عوامی مقامات پر ٹوائلٹس۔۔۔ دیرینہ مسئلہ لیکن آنکھ سے اوجھل 

سلمیٰ جہانگیر

”مہنگائی، مار کٹائی، پیٹرول، سونے اور ڈالر کی قیمتیں بڑھنے کے مسائل اتنے بڑے ہیں کہ ان مسئلوں کے آگے مجھے اپنا مسئلہ ہیچ لگتا ہے۔ میں ایک مسئلے کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں جو شاید صرف میرا مسئلہ نہیں ہے بلکہ بہت سی  خواتین کا مسئلہ ہے، جن کا روز باہر جانا ہوتا ہے یا پھر کبھی کبھار کسی کام یا خریداری کے لیے گھر سے نکلنا ہوتا ہے۔

یہ مسئلہ ایک خوف سے شروع ہوتا ہے کہ باہر کہیں اگر واش روم جانے کی حاجت ہوئی تو پھر کیا کیا جائے گا۔ اس خوف کا نہ تو کوئی حل ہے اور نہ ہی نجات۔ کبھی کبھار تو جی چاہتا ہے کہ لمبے وقت کے لیے باہر جاتے ہوئے  پیمپر کا استعمال شروع کر دیا جائے۔”

واقعی جب ہم نے شبانہ بی بی کی یہ باتیں سنیں تو ہمیں احساس ہوا کہ بظاہر سادہ سا نظر آنے والا یہ مسئلہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے، اس کے ساتھ کئی طرح کی پیچیدگیاں بھی جڑی ہوئی ہیں۔ اس مسئلے پر یوں تو گاہے بگاہے بات ہوتی رہتی ہے لیکن اس کے حل پر اصرار کہیں نظر نہیں آتا۔ اسی  لیے ہم نے مزید خواتین سے اس مسئلے کے حوالے سے بات کی جن میں ایک پشاور کے نواحی گاؤں بڈھ بیر سے تعلق رکھنے والی شہناز بھی ہیں۔

”بچپن سے میں نے گھر کی خواتین کو گھر سے باہر جانے سے قبل تیاری کرتے دیکھا لیکن ان تیاریوں میں سرِفہرست تیاری واش روم جانا اور اس امر کو خصوصاً گھر سے باہر قدم رکھنے سے کچھ لمحے پہلے دوہرانا ہے۔ بچوں کو بھی بار بار آواز لگائی جاتی تھی کہ جس نے بھی واش روم جانا ہے ابھی چلا جائے باہر کہیں بھی جگہ نہیں ملے گی۔ بچپن میں تو اس اہم مسئلے کو اتنا قابلِ توجہ نہ سمجھا لیکن بڑے ہوتے ہوتے سمجھ میں آتا گیا۔ بازار میں یا کسی اور مصروفیت کے لیے گھر سے باہر نکلنے اور زیادہ وقت لگنے کی صورت میں واش روم کی تلاش ایک جان جوکھم کام ہے۔ کبھی کبھار تو ایسا ہوا کہ خریداری مکمل کئے بغیر گھر کا رخ کرنا پڑا کیونکہ میری چچی ذیابیطس کی مریضہ ہیں اور وہ پیشاب  کو زیادہ دیر تک کنٹرل نہیں کر سکتیں۔”

گلِ رخ کے مطابق یہ مسئلہ ان دنوں مزید بڑھ جاتا ہے جب خواتین مخصوص ایام سے گزر رہی ہوتی ہیں۔ تب تو نہ پوچھیں کہ بحالتِ مجبوری گھر سے باہر نکلنا بھی پڑے تو کتنا برا وقت گزرتا ہے اور کبھی گھر سے باہر رہتے ہوئے ایسے کسی مسئلے سے دوچار ہونا پڑے تو تب کی تو حالت ہی الگ ہو جاتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بچوں کو ساتھ لے کر باہر نکلنا بھی ایک مشکل کام ہی ہے ساتھ میں اگر مرد نہ ہو تو بچوں کو لے کر آپ واش روم ڈھونڈتے پھریں۔

ٹاؤن ون پشاور کے ٹاؤن آفیسر ریگولیشن ریاض احمد اعوان کے مُطابق خواتین کے لیے الگ عوامی واش رومز بنائے گئے ہیں، پشاور شہر میں جتنے بڑے پلازہ یا شاپنگ مالز بنائے گئے ہیں سب میں خواتین کے لیے الگ بیت الخلاء کا انتظام موجود ہے لیکن پشتون معاشرے میں چاہے عورتوں کو باہر جتنی بھی واش روم کی حاجت پڑ جائے تو وہ گھر سے باہر بیت الخلاء کا استعمال نہیں کرتیں۔

کیا واقعی مسئلہ صرف روایت کا ہے باقی سب ٹھیک ہے؟ اس حوالے سے ہم نے بات کی ہادیہ غلام  سے جو نوکری کے سلسلے میں روزانہ 31 کلومیٹر ایک طرف کا فاصلہ طے کرتی ہیں۔ ہادیہ کے مطابق واش رومز بنائے گئے ہوں گے لیکن ان واش رومز کے بنانے میں کسی سروے کا عمل دخل نہیں ہو گا یا پھر ان واش رومز کی لوکیشن مناسب نہیں ہو گی یا یہ ایسی جگہ پر ہیں جو بہت دور ہیں اور جن کے بارے میں پتہ بھی نہیں چلتا، اب کوئی بھرے بازار یا لوگوں کے جمگھٹ میں تو واش روم جانا پسند نہیں کرے گا وہ بھی خواتین، اوپر سے ان واش رومز کی صفائی ستھرائی، ان کا خیال ایک الگ مسئلہ ہے۔

سرکاری سکول کی استانی کوثر بی بی کے مطابق اسے کوئی مسئلہ نہیں اگر بازار میں سہولت موجود ہو تو جانے میں کوئی عار نہیں "لیکن جہاں تک میرا تجربہ ہے حکومت کا دھیان کبھی اس مسئلے کی طرف گیا ہی نہیں اور ابھی تک کہیں بھی خواتین کے لئے الگ واش روم نہیں، جگہ جگہ مردانہ واش رومز ہوتے ہیں لیکن یہ سہولت پشاور شہر میں خواتین کے لئے کہیں بھی میسر نہیں۔ ان کے مطابق شاپنگ مالز کے علاوہ عام بازاروں میں خواتین کو کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اب ہر کوئی تو شاپنگ مال میں خریداری کرنے نہیں جاتا، کبھی دوران سفر یا گھر سے باہر کسی اور کام کے معاملے میں واش روم جانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ کوثر بی بی کو جب یہ بتایا گیا کہ پشاور شہر ہی میں سرکاری طور پر واش رومز بنائے گئے ہیں تو انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے کسی بھی واش روم سے وہ لاعلم ہیں اور نہ ہی انہوں نے کسی اور سے اس بارے میں سنا ہے۔

عاصمہ جو پشاور کے سرکاری ادارے میں کام کرتی ہیں، ان کے مطابق پشاور شہر میں زنانہ واشروم نا ہونے کے برابر ہیں اور جہاں یہ سہولت موجود بھی ہے تو خواتین وہاں جانے سے کتراتی ہیں کیونکہ ان خواتین کو یہ لگتا ہے کہ کسی عورت کا گھر سے باہر واش روم جانا معیوب بات ہے لیکن میرا سوال یہ ہے کہ یہ تو ایک فطری عمل ہے اسے خود سے کیسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے، یہ چونکہ معاشرتی روایات سے ہٹ کر ہے اس لیے ابھی ضرورت محسوس نہیں ہونی چاہیے، خواتین کا گھر سے باہر نکلنا ویسے ہی مشکل ہے اوپر سے پبلک ٹوائلٹس کی عدم دستیابی اس مہم جوئی کو مزید مشکل بناتی ہے۔

ٹیکس انسپکٹر ٹاؤن ون پشاور مظہر علی کے مطابق ٹاؤن ون پشاور کی حدود میں لیڈیز کی سہولت کے لئے حال ہی میں ایک پبلک واش روم (USAID) کی جانب سے بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان میں  لیڈیز کے لئے 8 سے 10 یونٹس ہیں جو کہ سبزی منڈی کے سامنے بنائے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹاؤن ون کی حدود میں ٹوٹل 6 جگہوں پر عوامی واش رومز بنے ہیں جن میں خواتین کےلئے مناسب انتظام نہیں ہے لیکن خصوصاً فن لینڈ پارک میں لیڈیز کے لئے سال 2019 میں الگ واش روم تعمیر کئے گئے،  اور حال ہی میں ٹاؤن ون پشاور کے مختلف جگہوں یعنی بازاروں کا دورہ کیا جہاں عوام بالخصوص خواتین کےلئے واش رومز بنائے جائیں گے جن پر ابھی کام ہو رہا ہے۔

صائمہ یوسف ایک نوکر پیشہ خاتون نے بتایا کہ ان کو بیماری کی وجہ سے ہر گھنٹے بعد واش روم جانا ہوتا ہے، ان کو اتنا معلوم ہے کہ بازاروں میں خواتین کے لئے لیٹرین کا الگ انتظام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت کے وقت ان کو یہ بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ مردانہ واش رومز کہاں ہیں؟

اس حوالے سے (واٹر اینڈ سینیٹیشن) واٹسن کے اسسٹنٹ کوآرڈینیٹر عمران اللہ مہمند نے بتایا کہ 19 نومبر 2019 کو خیبر پختونخوا کی حکومت نے پبلک ٹوائلٹ فائنڈر ایپ کا افتتاح کیا تھا جس کی مدد سے ایک بندہ اپنے قریب پبلک ٹوائلٹس کی موجودگی کے حوالے سے معلومات جان سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ سائنس و انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تعاون سے بننے والی یہ پبلک ٹوائلٹ فائنڈر ایپ آسٹریلیا اور ہندوستان کے بعد خیبر پختونخوا میں لانچ ہوئی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ریسرچ سروے کی بنیاد پر متعلقہ ایپ میں پبلک واش رومز کی موجودگی، دوری، بچوں، خواتین اور خصوصی افراد کے لئے سہولیات سمیت تمام معلومات موجود ہیں۔

محکمہ بلدیات کے زیر انتظام واٹر اینڈ سینیٹیشن (واٹسن) سیل کا خیبر پختونخوا میں پبلک واش رومز کے بارے میں ایپ بنانا یقیناً ایک قابل ستائش قدم ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ایپ گوگل پلے سٹور سے باآسانی ڈاؤن لوڈ یا جا سکتا ہے اور اس سے ہر کوئی مستفید ہو سکتا ہے۔

خیبر پختونخوا کے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت لی گئی معلومات کے مطابق اس وقت پشاور شہر کے مختلف مقامات پر مجموعی طور پر 210 عوامی واش رومز ہیں جن میں 146 مردانہ اور 64 زنانہ ہیں (تفصیل چارٹ میں دی گئی ہے)۔

جگہ کا نام مردانہ ٹوائلٹس زنانہ ٹوائلٹس
کارخانو مارکیٹ 14 8
کوہاٹ اڈہ بس سٹینڈ 10 8
حاجی کیمپ بس سٹینڈ 10 8
     
چارسدہ اڈہ بس سٹینڈ 10 8
باغ ناران پارک 12 8
تاتارا پارک 6 4
گریژن پارک 8 6
خالد بن ولید پارک 8 6
شاہی باغ 8 8
شفیع مارکیٹ صدر 8 0
سٹیڈیم چوک صدر 8 0
کینٹونمنٹ ہسپتال 8 0
تختو جماعت 6 0
خیبر بازار 6 0
لاہور اڈہ 6 معلومنہیں
صدر ہائی سکول نمبر 2 کے اردگرد 8 0
خیبر ٹیچنگ ہسپتال 8 0
فردوس چوک نزد جناح پارک 6 0
لیڈی ریڈنگ ہسپتال چوک 8

 

پشاور میں خواتین کو ٹوائلٹ کی سہولت فراہم کرنے والے مارکیٹوں میں ڈینز ٹریڈ سنٹر پشاور سرفہرست ہے۔

عمران مہمند نے بتایا کہ اس ٹوائلٹ فائنڈر ایپ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کو ڈاؤن لوڈ کرنے سے پورے صوبے میں موجود عوامی لیٹرین کے بارے میں معلومات باآسانی حاصل ہوتی ہیں جہاں پبلک واش رومز ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر کسی کو پشاور سے کوہاٹ یا کرک یا کسی اور علاقے سفر کرنا ہو تو دوران سفر اس ایپ کے ذریعے ایک یا دو کلو میٹر کے فاصلے پر جو نزدیک ترین واش روم ہوتا ہے اس کی لوکیشن معلوم کی جا سکتی ہے چاہے وہ واش روم پبلک ہو یا کسی سی این جی یا پیٹرول پمپ میں تو اس کی لوکیشن معلوم کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ عمران مہمند نے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ اس ایپ کے ذریعے یہ جاننے میں بھی مدد ملتی ہے کہ واش رومز میں کار پارکنگ کی جگہ ہے کہ نہیں۔

واش روم میں موجود سہولیات جیسے کہ ٹوائلٹ پیپر، صابن، اور پانی کے بارے معلومات دینا بھی ایپ کا حصہ ہے۔

لیکن ایپ کو ڈاون لوڈ کرنے کے بعد استعمال کرنے کی کوشش کرنے سے معلوم ہوا کہ ایپ میں خرابی کی وجہ سے اس تک رسائی ناممکن ہے۔ کچھ عرصے کے انتظار کے بعد پھر اس ایپ کو دوبارہ ڈاون لوڈ کرنے کی کوشش کی گئی تب بھی صورت حال کچھ مختلف نہ تھی۔ اب سوال یہ ہے ایک ایپ بنانا اہم ہے یا اس ایپ کا کام کرتے رہنا زیادہ ضروری ہے۔ یہ ایپ ڈاون لوڈ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ دیکھا جائے کہ اس میں دی جانے والی معلومات کس حد تک درست اور سودمند ثابت ہو سکتی ہیں۔

اس سلسلے میں جب انتظامیہ سے بات کی تو ان کے کہنے کے مُطابق ایپ کو اپڈیٹ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے یہ عارضی طور پر کام نہیں کر رہی۔ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے اور دیکھنا چاہیں گے کہ یہ ایپ کیسے اور کتنا کام کرتی ہے کیونکہ یہ ایک مسئلے کا حل ہو سکتی ہے جو پشاور شہر کی تقریباً دس لاکھ عورتوں کی آبادی کے ایک اہم مسئلے کو حل کرنے میں کسی حد تک مدد دے سکتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button