لائف سٹائل

لاک ڈاؤن کے دوران خیبرپختونخوا میں طلاق کی شرح میں 50 فیصد اضافہ ہوا: سروے

 

سلمیٰ جہانگیر
"روز مرتا تھا جب لوگ مجھ سے پوچھتے تھے کہ واقعی تم نا مرد ہو اور بچہ پیدا کرنے کے قابل نہیں.بیوی سچ کہتی تھی یا جان چھڑانے کیلئے یہ بات پھیلائی ؟”. یہ کہنا ہے پشاور کے نواحی گاؤں بہادر کلی سے تعلق رکھنے والے محمد نعمان کا جس نے طلاق کے بعد اپنا آبائی علاقہ چھوڑا اور بہادر کلی میں آکر رہائش اختیار کی.

ایک سروے کے مطابق جولائی 2021 تک ملک میں طلاق کی شرح پچھلے سالوں کے مقابلے میں58 فیصد رہی.جبکہ لاک ڈاؤن کے دوران خیبر پختون خواہ میں طلاق کی شرح میں 50 فیصد اضافہ ہوا. جو پچھلے سالوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے.

محمد نعمان نے مزیدبتایا کہ اسکی شادی اپنے ماموں زاد بیٹی کے ساتھ ہوئی جسکا رشتہ بچپن میں طے پا گیا تھا.شادی کی رات ہی میری بیوی نے قران پاک اٹھا کر کہا کہ تم اس پر ہاتھ رکھ کرکہو کہ میں تمہاری بہن ہوں اور ہم دونوں کے درمیان بھائی بہن کا رشتہ ہوگا. یہ سن کر میں سناٹے میں آگیا اور کچھ نا کہا. مجھے اپنے معاشرے کے تلخ رویوں کا علم تھا اسی لئے خاموشی بہتر سمجھی. شادی کے کچھ عرصے بعد میری بیوی نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ میرا شوہر نا مرد ہے.یہ بات پورے علاقے میں پھیل گئی اور یوں بدنامی کا داغ میرے ماتھے پرلگ گیا. میں نے بیوی کو طلاق دی کیونکہ وہ مہر لینا چاہتی تھی میں نے طلاق دی اور جتنا مہر ماہوار تھا وہ بھی دیا اور بدنامی کا داغ لیکر ایک ایسے علاقے آگیا جہاں لوگ مجھے نہیں جانتے تھے… میں نے ایک غریب خاندان میں شادی کی جو میرے ماضی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے اور شادی کی 9 مہنے بعد ہی اللہ نے مجھے بیٹا دیا.. اور اس وقت میں دو بچوں کا باپ ہوں.
چونکہ طلاق دینا مرد کے لئے آسان ہے اس لئے مرد کو کورٹ کچہری کے چکر نہیں لگانے پڑتے جبکہ عورت اگر خلع لینا چاہے تو اسکو انصاف کے لئے عدالت کا دروازہ کٹکٹانا ہوتا ہے. اس لئے زیادہ تر فیملی کیسز خواتین کی طرف سے دائر ہوتے ہیں.اگر خلع دینے پر مرد راضی نا ہو تو ایسے کیسز سالہا سال چلتے رہتے ہیں.
ایڈوکیٹ اسماء بی بی جو کہ 2020 سے بطور اسسٹنٹ کمپلینٹ افیسرھیومن رائٹس کمیشن پشاور کے ساتھ کام کر رہی ہیں نے بتایاا نکا مزید کہنا ہے کہ خیبر پختون خواہ میں 2020 سے جولائی 2021 تک تقریباً 10,000 فیملی کیسز فیملی کورٹس میں دائر ہوۓ ہیں جو زیادہ تر عورتوں کی طرف سے خلع کے لئے ہیں اور سارے کیسز کی نوعیت گھریلو تشدد بتایا جاتا ہے. ان میں کچھ کیسز ایسے ہیں جن میں خاوند کی کسی دوسری عورت سے تعلقات,نشہ,دوسری شادی, پسند کی شادی نا ہونا وغیرہ شامل ہیں .
اسماء بی بی نے بتایا کہ 2021 میں HRCP کے پاس کل 80 فیملی کیسز آۓہیں جن میں 95 فیصد حل ہو چکے ہیں اور عورتوں کو انکا حق بھی مل چکا ہے جبکہ 5 فیصد ابھی تک چل رہے ہیں.
مسرت کا کہنا ہے کہ اسے عدالت سے انصاف کی توقع تھی لیکن ہمارے ہاں عدالتی نظام بہت سست ہے اور کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے اکثر عدالتیں بند ہوتی ہیں جس سے اسکا کیس طول پکڑتا رہا . اسکی مالی حالت اس قابل نہیں تھی کہ کیس کا دورانیہ اور لمبا ہو.وہ قرضہ لیکر وکیل کو فیس کی ادائیگی کرتی تھی.مسرت کے مطابق کورٹ کچہری کے چکر کاٹنا ایک عورت کے لیے ہمارے معاشرے میں براسمجھا جاتا ہے اور اس مطلقہ عورت کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتااوراسکی زندگی بہت مشکل سے دو چار ہوتی ہیں. .

شمیم(فرضی نام) نامی لڑکی نے بتایا کہ اس نے شوہر سے خلع لینے کے لیے عدالت سے رجوع کیا. جس پر اسکے شوہر نے اسے دھمکی دی کی کہ اگر وہ گھر سے عدالت کے لئے گئی تو اسکا قصہ راستے میں ہی تمام کر دیگا. شمیم کو یہ ڈر ہے کہ واقعی اگر اسکے شوہر نے ایساکیا تو اسکی معصوم بچی کا کیا ہوگا. اسکا شوہر پہلے سے ہی بیوی بچی کے فرائض سے اپنے آپکو آزاد کر چکا ہے اور اب اسکے لیے نئی مشکل کھڑی کی ہے. شمیم نے بتایا کہ وہ وکیل کو فیس دے چکی ہے لیکن شوہر کی دھمکیوں کی وجہ سے عدالت جانے سے ڈرتی ہیں.
شمیم نے بتایا کہ وہ خلع اس لئے چاہتی ہیں کیونکہ اسکا شوہراسکی بیٹی کے پیدائش پر خوش نہیں ہے اور اب وہ دوسری شادی کرنا چاہتا ہے. وہ مجھے اور بیٹی کو خرچہ نہیں دیتا. میں میکے آکر رہ رہی ہوں. میکے آکر اپنوں کے تلخ اور طنزیہ رویوں کو روزانہ برداشت کرنا پڑتا ہے.

اسماء کا کہنا ہے کہ پچھلے چھ مہینوں سے ہمارے پاس تقریباً جتنے بھی فیملی کیسز آۓ ہیں ان سب کی وجوہات مختلف ہیں کچھ ایسے کیسز ہیں کہ متاثرہ عورت کا شوہر نشئ ہوتا ہے اور نشے کی حالت میں اسکو مارتا ہے زیادہ تر مرد آئس کے نشےکے عادی ہوتے ہیں. ان کیسز میں اب تک 2 ایسے کیسز بھی ہیں جن میں شوہر نے نشے کی حالت میں اپنی بیوی پر تیزاب پھینکا ہے.
دوسری وجہ جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ مرد دوسری شادی کرنے کے لیے اپنی بیوی کو دھمکاتا ہے اور دوسری شادی کرنے کے بعد پہلی بیوی کو اسکے حقوق نہیں دیتا یا اپنی بیوی بچوں کو انکبنیادی حقوق نہیں دیتا جسکی وجہ سے پہلی بیوی خلع کے لئے درخواست دیتی دائر کر دیتی ہیں.
دوسری طرف انعم جنکا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے کا کہنا ہے کہ اسکی شادی جان پہچان کے لوگوں میں ہوئی اور شادی کے 15 دن بعد اسکا شوہر دوبئی چلا گیا. ساس کا رویہ ٹھیک نہیں تھا تو میں میکے آگئی کینوکہ میں امید سے تھی اور سسرال میں میرا کوئی خاص خیال رکھنے والا نہیں تھا. دو مہینوں تک شوہر خرچہ بھجواتا رہا لیکن اسکے بعد وہ بند ہو گیا. ٹیلفونک رابطہ بھی بند ہو گیا. میری بیٹی کے پیدائش کے بعد میں نے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن نا ہوسکا. اب میری بیٹی 3 سال کی ہے لیکن نا اس نے باپ کو دیکھا اور نا ہی اسکا باپ اسکو دیکھنا چاہتا ہے. تو میں نے تنگ آکر خلع کے لئے درخواست دائر کر دی.اور ابھی تک اسکا کیس چل رہا ہے اور وہ عدالت سے انصاف کے لئے پرامید ہے.
اسکے علاوہ اور وجوہات بھی شامل ہیں جن میں ساس کی طرف سے اپنی بہو پر تشدد کے واقعات شامل ہیں.
پاکستان میں فیملی کورٹس ایکٹ اکتوبر 2015 میں منظور ہوا تھا جس کے سیکشن 10 کی دفعہ 6 کے تحت قانونی طور پر طلاق و خلع کا عمل آسان تر کردیا گیا تھا جو کہ طلاق کی بڑھتی ہوئی تعداد میں اضافہ کررہا ہے

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button