خیبر پختونخواعوام کی آواز

پشاور میں چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، اور عوام کا ردعمل

آفتاب مہمند

چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے شہر پشاور میں واقع رامپورہ گیٹ (مارکیٹ) میں چینی فروش و کاروباری شخص، تیمور خان، چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ پشاور میں اس وقت فی کلو چینی کی قیمت 178 روپے جبکہ 50 کلو فی تھیلے کی قیمت 8900 روپے ہے۔

چینی کی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بعض مافیاز بھی ہیں، جو سٹاک مارکیٹ میں کام کرتے ہیں اور پھر جب گنے کی کرشنگ کا سیزن ختم ہو جاتا ہے تو ایسے مواقعوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔

انکا کہنا ہے کہ حکومت نے چینی نرخوں کو کنٹرول کرنے کا جو اعلان کر رکھا ہے، وہ خود بھی اس پر عمل درآمد ہونے کے منتظر ہیں۔

تیمور خان کہتے ہیں کہ پشاور کے رامپورہ گیٹ میں 6 سے 8 ٹرالے مال آتا ہے، جسکی پیمنٹ ہر دکاندار آن لائن کرتے ہیں۔ اس وقت رامپورہ گیٹ کے مارکیٹ میں دکانداروں کے پاس جو موجودہ سٹاک ہے، دکانداروں کا سارا انحصار اسی پر ہے، کوئی بھی دکاندار نئے سٹاک خریدنے کو تیار نہیں۔

تیمور نے مزید بتایا کہ دکانداروں کی پریشانی کی بڑی وجہ آن لائن ٹرانزیکشنز پر حکومتی ٹیکس اور ذرائع آمدن کا بار بار پوچھنا و تفتیش کرنا بھی ہے۔ اد میں صرف مل مالکان کی ادائیگیاں نہیں، بروکرز سمیت کئی اور جگہ بھی پیمنٹ کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف اگر قیمتیں بڑھ گئی ہیں تو دوسری طرف وہ آن لائن ٹیکس و حکومتی رویے کے باعث سخت پریشان ہیں اور اسی وجہ سے خرید و فروخت میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

رابطہ کرنے پر پشاور سے تعلق رکھنے والے چینی ڈیلر خرم شہزاد نے ٹی این این کو بتایا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ گنے کے کرشنگ سیزن کا خاتمہ بھی ہے، جونہی سیزن ختم ہوتا ہے تو کچھ دنوں بعد قیمتیں بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں۔

"اکتوبر کے آخر یا نومبر کی شروعات میں سیزن جب شروع ہو کر فروری یا مارچ میں اختتام تک حکومت خود اعلان کرتی ہے کہ انہوں نے اتنا سٹاک لے لیا۔”

یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ ایف بی آر نے ملوں پر جو سیل ٹیکس لگا کر رکھا ہے، تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو کر ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

خرم کا کہنا ہے کہ اسی طرح ہر سال ملوں کے دیگر اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے میں ہر چیز کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہیں۔ انکے خیال میں ستمبر تک چینی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ رہے گا۔

البتہ محرم ہوں، رمضان یا عید جیسے مواقعوں پر چونکہ ڈیمانڈ میں اضافہ ہو جاتا ہے تو ایسے میں بھی چینی کی قیمتیں ضرور بڑھ جاتی ہیں۔ امید ہے کہ نئے سیزن کا آغاز ہوتے ہی قیمتوں میں کمی ہو جائیگی۔

خرم شہزاد نے بتایا کہ جتنے بھی ڈیلرز ہیں یا مل مالکان، انکی کوشش ہوتی ہے کہ نئے سیزن شروع ہونے سے قبل پرانا سٹاک ختم کیا جائے۔ انکا نہیں خیال کہ مافیاز کی بات درست ہے جسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی ڈیلر کسی بھی غرض سے چینی کو ذخیرہ کریں تو انکا نقصان ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ کاروبار تو روزانہ کے حساب سے کیا جاتا ہے۔

دوسری اہم بات یہ کہ ان دنوں تو چینی سٹاک کرنے سے خراب بھی ہو جاتی ہے۔ ملکی میں چینی کی سے سے بڑی مارکیٹ کی بات ہے، تو وہ "لاہور” ہے سارے معاملات ادھر سے طے ہو جاتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں تو اب تین سے چار شوگر ملز ہی رہ گئے ہیں، باقی تو ختم ہو چکے ہیں۔

بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان پشاور کے شہریوں محمد سلیمان، اختر علی، حکیم اللہ و دیگر نے ٹی این این کو بتایا کہ ایک جگہ اگر چینی کی فی کلو قیمت 177 روپے ہیں تو دوسری جگہوں پر 180 یا 183 کیوں؟ یہ حکومتی و متعلقہ اداروں کا کام ہے کہ صرف کمیٹیاں قائم نہ کریں بلکہ فی کلو قیمیت 150 روپے یا اس سے بھی کم تک لانے کیلئے فوری اقدامات کیا کریں۔

Show More

Aftab Mohmand

Aftab Mohmand is Peshawar based journalist working from past 17 years in diverse media field including print, electronic and digital media.

متعلقہ پوسٹس

Back to top button