خیبر پختونخواعوام کی آواز

مہنگائی مافیا بے لگام، رمضان میں حکومت کا سرکاری ریٹ لسٹ صرف دکھاوا بن کے رہ گیا

رفاقت اللہ رزڑوال

رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے، لیکن ضلعی انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ شاید ان کے دفاتر میں بیٹھے افسران کو بازاروں کے اصل حالات سے کوئی دلچسپی ہی نہیں، یا پھر وہ مافیا کے ساتھ ملے ہوئے ہیں؟

پشاور اور دیگر اضلاع کی انتظامیہ نے بڑی شان سے خوراکی اشیاء کی قیمتوں کا ایک سرکاری لسٹ جاری کیا، جو اب صرف دکانوں پر دیواروں کی زینت بنا ہوا ہے، کیونکہ عمل درآمد تو دور کی بات، کوئی اس لسٹ کو خاطر میں بھی نہیں لا رہا۔ قصائی ہوں یا کریانہ اسٹور والے، سب اپنی مرضی کے بادشاہ ہیں اور قیمتوں کا تعین حکومت نہیں بلکہ منافع خور خود کر رہے ہیں۔

ضلعی انتظامیہ کی فہرست اور حقیقت میں زمین آسمان کا فرق ہے، خیبرپختونخوا میں بھینس کے گوشت کی قیمت 800 روپے فی کلو مقرر کی گئی تھی، لیکن بازار جائیں تو 1000 روپے سے کم کوئی بات نہیں۔ قیمہ 980 روپے میں ملنا چاہیئے، مگر حقیقت میں 1400 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ بکرے کا گوشت سرکاری نرخ پر 1700 روپے میں دستیاب ہونا چاہیئے، لیکن گرانفروشوں کی مہربانی سے 2200 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔

دالیں اور چاول بھی انوکھے مہمان بن چکے ہیں۔ چاول سیلہ نمبر 1 نیا 280 کی بجائے 320 روپے میں، جبکہ پرانا 300 کی بجائے 340 میں بیچا جا رہا ہے۔ عوام اس وقت شدید تذبذب کا شکار ہے کیونکہ سرکاری لسٹ میں ایک ہی خوراکی آئٹم کی تین تین قسموں کی قیمتیں دی گئی ہیں، جس سے دوکاندار عوام کو دھوکہ دے کر کمزور معیار کی چیز مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں۔

مثال کے طور پر، دال چنا نمبر 1 کی قیمت 300 روپے اور دال چنا نمبر 2 کی قیمت 280 روپے مقرر کی گئی ہے۔ عام شہری جب دکاندار سے خریداری کے لیے جاتا ہے تو اسے دال چنا نمبر 2 ہی 300 روپے میں دے دیا جاتا ہے اور اسے نمبر 1 کا معیار قرار دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی صارف سرکاری نرخوں پر خریداری کا مطالبہ کرے تو دوکاندار یا تو سخت زبان استعمال کرتا ہے یا سیدھا جھگڑا شروع کر دیتا ہے۔

گائے کے دودھ کی قیمت 180 روپے مقرر ہے لیکن مارکیٹ میں 220 روپے میں فروخت ہو رہا ہے، بھینس کے دودھ کی سرکاری قیمت 220 روپے فی کلو ہے مگر فروخت 240 روپے ہے، جبکہ دہی کی قیمت 230 مقرر ہے لیکن عوام 260 سے 280 روپے میں خریدنے پر مجبور ہیں۔ میدہ، آٹا اور سوجی کی قیمت 100 روپے مقرر کی گئی ہے مگر عملی طور پر 120 روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے۔

ایل پی جی گیس کا نرخ حکومت نے 270 روپے فی کلو رکھا، لیکن بازار میں 320 روپے یا اس سے بھی زیادہ میں دستیاب ہے۔ کیا یہ سب انتظامیہ کی ناک کے نیچے نہیں ہو رہا؟ یا پھر ضلعی حکام کے لیے عوامی مفاد سے زیادہ کوئی اور مفاد عزیز ہے؟

اگر ضلع چارسدہ کی بات کی جائے تو عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے انتظامیہ نے دو شکایتی نمبرز بھی جاری کیے: 0919220137 اور 0919220021۔ اب ذرا مزے کی بات سنیں! ان نمبرز پر اگر کوئی کال کرے تو یا تو کال اٹھائی ہی نہیں جاتی، یا پھر کسی بابو کی طرف سے روایتی "ہم دیکھ رہے ہیں” والا جملہ سننے کو ملتا ہے، اور پھر کچھ نہیں ہوتا۔

حقیقت یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ کے اہلکار صرف فوٹو سیشن کے شوقین ہیں۔ بازاروں میں چند منٹ کے "چھاپہ مار کاروائی” کرکے دو چار قصائیوں کو پکڑ کر تصویریں بناتے ہیں، اور پھر یہی تصویریں وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری کو رپورٹ میں چپکا دی جاتی ہیں۔ باقی پورا بازار حسبِ سابق انتظامیہ کی آنکھوں کے سامنے عوام کو لوٹتا رہتا ہے۔

کیا گرانفروشوں سے کمیشن کھایا جا رہا ہے؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر انتظامیہ ان منافع خوروں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کر رہی؟ کیا انہیں مفت کا گوشت، سبزیاں، اور دیگر اشیاء فراہم کی جاتی ہیں؟ کیا "حصہ بقدر جثہ” (جس کا جتنا حصہ بنتا ہے) کی بنیاد پر معاملات طے ہو چکے ہیں؟ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ گرانفروش کھلم کھلا عوام کو لوٹ رہے ہیں اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے؟

چارسدہ کے کئی قصائیوں نے اپنے گھروں میں غیر قانونی مذبح خانے کھول رکھے ہیں، جہاں 1100 روپے فی کلو کے حساب سے گوشت فروخت ہو رہا ہے۔ سب جانتے ہیں، انتظامیہ بھی جانتی ہے، مگر مجال ہے جو کسی کے خلاف کوئی سنجیدہ کارروائی ہو!

انتظامیہ اگر بے بس ہے تو عوام کہاں جائیں؟

اگر ضلعی انتظامیہ مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، اگر وہ گرانفروشوں کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے، تو پھر عوام کہاں جائیں؟ روزہ دار، غریب مزدور، عام شہری اگر مہنگائی کی چکی میں پِس رہے ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟

یہ صورتحال چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ یا تو ضلعی انتظامیہ مکمل طور پر نااہل ہے، یا پھر خود بھی اس دھندے میں ملوث ہے۔ عوام کو بیوقوف بنانے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیئے۔ اگر انتظامیہ واقعی عوام کے لیے کام کر رہی ہے تو پھر اسے عملی اقدامات دکھانے ہوں گے، ورنہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔

Show More

Rifaqat ullah Razarwal

رفاقت اللہ رزڑوال چارسدہ کے رہائشی اور ٹرائبل نیوز نیٹ ورک کے ساتھ بطور رپورٹر منسلک ہیں۔ وہ انسانی حقوق، ماحولیات اور دہشت گردی جیسے موضوعات پر ویب سائٹ اور ریڈیو کیلئے رپورٹنگ کرتے ہیں۔ 2014 سے عملی صحافت میں خدمات سرانجام دینے والے رفاقت اللہ رزڑوال نے 2018 میں پشاور یونیورسٹی سے جرنلزم میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button